کاشفی
محفلین
ہائیکو - آفتاب مضطر
اردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں سب سے نیا اضافہ جاپان کی سہ مصرعی نظم "ہائیکو" ہے۔ ابتدا میں ہائیکو نگاری مقبولیت کے لحاظ سے ناکام ہوتی نظر آئی لیکن جناب محترم محشر بدایونی، راغب مراد آبادی اور محسن بھوپالی جیسے معتبر ترین شعرا نے اس صنعفِ سخن کو اپنایا تو بہت سے دوسرے شعرا بھی اس جانب متوجہ ہوئے اور یوں ہائیکو آہستہ آہستہ قبولیت کے مراحل طے کرتی رہی۔ جن شعراء کرام نے تسلسل کے ساتھ ہائیکو نگاری کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے ان میں آفتاب مضطر کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے، ایسا نہیں کہ آفتاب مضطر شاعری کی دوسری اصناف سے گریز کرتے ہیں بلکہ ہائیکو کے ساتھ ساتھ وہ غزل اور نظم میں بھی اپنا ایک منفرد اسلوب اور آہنگ رکھتے ہیں۔۔آفتاب مضطر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ پاکستان میں جاپان کے سفارت خانہ نے آپکے لکھے ہوئے ہائیکوز کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی شائع کرایا ہے۔۔
مکمّل
حسن مکمّل ہے
حسنِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کامل و اکمل ہے
یادش بخیر
ایک زمانہ تھا
میرا اس کی گلیوں میں
آنا جانا تھا
سرگزشت
ان کے دامن پر
کیا دن تھے، میں رکھتا تھا
کلیاںچُن چُن کر
کپوت
چڑیا کا بچہ
ماں کو تنہا چھوڑ گیا
جب اُڑنا سیکھا
انبساط
ناچے من کا مور
گھر آنگن میں سنتا ہوں
جب بچوں کا شور
درپن
ٹھہری پانی میں
باتیں کرنے لگتے ہیں
چہرے پانی میں
بشکریہ - معظم سعید ، کراچی پاکستان
اردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں سب سے نیا اضافہ جاپان کی سہ مصرعی نظم "ہائیکو" ہے۔ ابتدا میں ہائیکو نگاری مقبولیت کے لحاظ سے ناکام ہوتی نظر آئی لیکن جناب محترم محشر بدایونی، راغب مراد آبادی اور محسن بھوپالی جیسے معتبر ترین شعرا نے اس صنعفِ سخن کو اپنایا تو بہت سے دوسرے شعرا بھی اس جانب متوجہ ہوئے اور یوں ہائیکو آہستہ آہستہ قبولیت کے مراحل طے کرتی رہی۔ جن شعراء کرام نے تسلسل کے ساتھ ہائیکو نگاری کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے ان میں آفتاب مضطر کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے، ایسا نہیں کہ آفتاب مضطر شاعری کی دوسری اصناف سے گریز کرتے ہیں بلکہ ہائیکو کے ساتھ ساتھ وہ غزل اور نظم میں بھی اپنا ایک منفرد اسلوب اور آہنگ رکھتے ہیں۔۔آفتاب مضطر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ پاکستان میں جاپان کے سفارت خانہ نے آپکے لکھے ہوئے ہائیکوز کا جاپانی زبان میں ترجمہ بھی شائع کرایا ہے۔۔
مکمّل
حسن مکمّل ہے
حسنِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کامل و اکمل ہے
یادش بخیر
ایک زمانہ تھا
میرا اس کی گلیوں میں
آنا جانا تھا
سرگزشت
ان کے دامن پر
کیا دن تھے، میں رکھتا تھا
کلیاںچُن چُن کر
کپوت
چڑیا کا بچہ
ماں کو تنہا چھوڑ گیا
جب اُڑنا سیکھا
انبساط
ناچے من کا مور
گھر آنگن میں سنتا ہوں
جب بچوں کا شور
درپن
ٹھہری پانی میں
باتیں کرنے لگتے ہیں
چہرے پانی میں
بشکریہ - معظم سعید ، کراچی پاکستان