ناعمہ عزیز
لائبریرین
عرصہ ہوا کچھ لکھا نہیں گیا ، وجہوہات تو کئی ایک ہیں لیکن یہ وجہ بھی تھی کہ کوئی موضوع نہیں ملا، حالانکہ کبھی کبھا ر مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے اندر الفاظ گدگدی کر رہے ہیں ۔۔ آج بھی روز کی طرح میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں تھا تو لیٹے لیٹے میں نے سوچا کچھ ہائی بلڈ پریشر پر زیر بحث لایا جائے ۔۔ ہائی بلڈ پریشر بڑی گندی بیماری ہے ۔ بیماریاں تو ساری ہی خیر کی نہیں لیکن اللہ بچائے اس ہائی بلڈ پریشر سے لوگوں کو ۔۔ کوئی اخیر ہی بیڑہ غرق کرتی ہے بندے کا۔ ایک منٹ میں الٹ دیتی ہے ۔ سمجھ ہی نہیں آتا ابھی چند منٹ پہلے بیٹھا نارمل بندہ اسے کیا دورہ پڑ گیا !
شروع ہی سے کچھ جذباتی طبیعیت پائی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑی کوشش کی ہے کہ اس پر قابو پاؤں کچھ کامیاب بھی رہی ہوں لیکن ابھی بھی کہیں نا کہیں جذباتیت کے دورے پڑ جاتےہیں کہ خوامخوہ ان کا نتیجہ ہائی بلڈ پریشر کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ یا کبھی کوئی ایسی خبر جسے ذہن و دل قبول نا کر رہا ہو وہ سنتے ہی بس خون ہتھے ہی اکھڑ جاتا ہے ۔۔ یوں لگتا ہے جیسے باؤلا کتا بولایا بولایا کبھی یہاں کبھی وہاں پھر رہا ہو ، بس پھر سارا سسٹم ہی اپ سیٹ ہو جاتا ہے ۔۔۔ سر ایک دم بھاری ہوتا ہے اور اس کے بھاری ہونے پر مجھے گدھے والی وہ کہانی یاد آجاتی ہے جس کا مالک روز گدھے پر نمک لاد کرشہر لے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں وہ ایک گندے نالے سے گزرتا تھا ، ایک روز ایسا ہو کہ گدھا نالے میں گر گیا ، جب وہ اٹھا تو نمک پانی میں بہہ جانے کی وجہ سے اس کا وزن کافی کم ہو گیا تھا ، اگلے دن پھر اس کے یہی کام کیا ، اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا ، مالک بڑا پریشان ہوا ، ایک روز تنگ آ کے مالک نے اس پر روئی لاد دی ، وزن تو کم تھا مگر شاید گدھا قناعت پسند نا تھا عادت کے مطابق وہی کام کیا اور جب اٹھا تو وزن کئی گنا بڑھ گیا تھا، ہائی بلڈ پریشر میں سر کا وزن بالکل اس گیلی روئی جتنا محسوس ہوتاہے، پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگتا ہے جیسے واپڈا والوں کی مہربانی سے بجلی بند ہو اور ایمرجنسی لائٹ کی چارجنگ بھی ختم ہو جائے اور رات کے دس بجے ہوں!!! فشار خون کچھ اور تیزی دکھاتا ہے ، اور سانس بھی مضطرب دکھائی دینے لگتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بوڑھا اپنی ساری زندگی گزار کر یاد ماضی میں غرق چارپائی پر بیٹھا پچھتاؤں کے کچوکے کھا رہا ہواور بڑا مضطرب سا اپنی زندگی کے ختم ہو نے کا سے انتظار کر رہا ہو تاکہ اس تکلیف سے نجات پا سکے ۔
دل کی حالت خراب ہونے لگتی ہے کہ سب کھایا پیا ایک ہی جست میں حلق تک آ جائے گا ، جیسے فٹ بال کے میچ میں مخالف ٹیم کی کوشش کے باوجود ایک ہی جست میں فٹ بال پار لگ جائے اور ہر طرف سے کامیابی کا شور اٹھنے لگے۔
ہاتھ ایسے کانپنے لگتے ہیں جیسے 2005 میں اچانک زلزلہ آیا تھا ، اور سب تہس نہس ہو گیا ، اور بس پھر بندہ نڈھال سا ہو کے گر پڑتا ہے ، تھوڑی دیر تک یہ آثار ہوتے ہیں پھر تھوڑا نارمل ہو جاتا ہے ۔
ایک شام ایسے طبیعیت کچھ خراب ہوئی تو بھائی کو فون کیا کہ کب آئیں گے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ، وہ آگئے تو ڈاکٹر کے پاس گئی مگر اس کی کلینک ہی بند تھی ، اگلے روز امی نے کہا چلو ہسپتال چلتے ہیں ، چلے گئی ان کے ساتھ طبیعیت کچھ ایسی خراب نا تھی کہ میں محسوس کرتی پھر بھی سوچا کہ چلو ڈاکٹر صاحب کو بتا کر اس کا کوئی مستقل حل نکالیں ، ڈاکٹر حبیب سبحانی نے جب میرا بلڈ پریشر چیک کروایا تو 150/100 تھا ۔ مجھے بڑی حیر ت ہوئی کہ جب میری طبیعیت زیادہ خراب ہوتی ہے تو تب کتنا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی کچھ ٹیسٹ کروانے کو کہا شاید اس تجسس سے کہ اس عمر میں کیسے بلد پریشر ہائی ہو سکتا ہے ! کئی سوال پوچھے بیٹا آپ نے کوئی ٹینشن ہے ؟پڑھتے ہو ؟ ہاسٹل میں رہتے ہو ؟ پیپر ہونے والے ہیں ؟ سلیبس یاد نہیں ہو گا؟ باہر کے کھانے کھاتے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ جب میرے ٹیسٹ ہوئے انہوں نے ایک سرسری نظر رپورٹس پر ڈال کے مجھے ایک ہفتے کی دوائی لکھ دی، اور دوائی میں نے پورا ایک ہفتہ کھائی اس نیت سے کہ اب یہ معاملہ ٹھپ ہوجائے گا ، مگر وہی گھات کے تین پات۔۔ اور پھر نے میں سوچا بھاڑ میں جائے ۔ بس اب میں نے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا کیونکہ اول تو ڈاکٹرز کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ میری بات سنیں ، اگر سنتے ہیں تو آدھی ! کیونکہ ہر مریض کے لئے کچھ مخصوص وقت ہے اس سے اسے وقت نہیں مل سکتا، اور دوسرا یہ کہ اب میں تنگ آ گئی ہوں مجھ سے کوئی دوا نہیں کھائی جاتی۔۔
شروع ہی سے کچھ جذباتی طبیعیت پائی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑی کوشش کی ہے کہ اس پر قابو پاؤں کچھ کامیاب بھی رہی ہوں لیکن ابھی بھی کہیں نا کہیں جذباتیت کے دورے پڑ جاتےہیں کہ خوامخوہ ان کا نتیجہ ہائی بلڈ پریشر کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ یا کبھی کوئی ایسی خبر جسے ذہن و دل قبول نا کر رہا ہو وہ سنتے ہی بس خون ہتھے ہی اکھڑ جاتا ہے ۔۔ یوں لگتا ہے جیسے باؤلا کتا بولایا بولایا کبھی یہاں کبھی وہاں پھر رہا ہو ، بس پھر سارا سسٹم ہی اپ سیٹ ہو جاتا ہے ۔۔۔ سر ایک دم بھاری ہوتا ہے اور اس کے بھاری ہونے پر مجھے گدھے والی وہ کہانی یاد آجاتی ہے جس کا مالک روز گدھے پر نمک لاد کرشہر لے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں وہ ایک گندے نالے سے گزرتا تھا ، ایک روز ایسا ہو کہ گدھا نالے میں گر گیا ، جب وہ اٹھا تو نمک پانی میں بہہ جانے کی وجہ سے اس کا وزن کافی کم ہو گیا تھا ، اگلے دن پھر اس کے یہی کام کیا ، اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا ، مالک بڑا پریشان ہوا ، ایک روز تنگ آ کے مالک نے اس پر روئی لاد دی ، وزن تو کم تھا مگر شاید گدھا قناعت پسند نا تھا عادت کے مطابق وہی کام کیا اور جب اٹھا تو وزن کئی گنا بڑھ گیا تھا، ہائی بلڈ پریشر میں سر کا وزن بالکل اس گیلی روئی جتنا محسوس ہوتاہے، پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے لگتا ہے جیسے واپڈا والوں کی مہربانی سے بجلی بند ہو اور ایمرجنسی لائٹ کی چارجنگ بھی ختم ہو جائے اور رات کے دس بجے ہوں!!! فشار خون کچھ اور تیزی دکھاتا ہے ، اور سانس بھی مضطرب دکھائی دینے لگتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بوڑھا اپنی ساری زندگی گزار کر یاد ماضی میں غرق چارپائی پر بیٹھا پچھتاؤں کے کچوکے کھا رہا ہواور بڑا مضطرب سا اپنی زندگی کے ختم ہو نے کا سے انتظار کر رہا ہو تاکہ اس تکلیف سے نجات پا سکے ۔
دل کی حالت خراب ہونے لگتی ہے کہ سب کھایا پیا ایک ہی جست میں حلق تک آ جائے گا ، جیسے فٹ بال کے میچ میں مخالف ٹیم کی کوشش کے باوجود ایک ہی جست میں فٹ بال پار لگ جائے اور ہر طرف سے کامیابی کا شور اٹھنے لگے۔
ہاتھ ایسے کانپنے لگتے ہیں جیسے 2005 میں اچانک زلزلہ آیا تھا ، اور سب تہس نہس ہو گیا ، اور بس پھر بندہ نڈھال سا ہو کے گر پڑتا ہے ، تھوڑی دیر تک یہ آثار ہوتے ہیں پھر تھوڑا نارمل ہو جاتا ہے ۔
ایک شام ایسے طبیعیت کچھ خراب ہوئی تو بھائی کو فون کیا کہ کب آئیں گے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ، وہ آگئے تو ڈاکٹر کے پاس گئی مگر اس کی کلینک ہی بند تھی ، اگلے روز امی نے کہا چلو ہسپتال چلتے ہیں ، چلے گئی ان کے ساتھ طبیعیت کچھ ایسی خراب نا تھی کہ میں محسوس کرتی پھر بھی سوچا کہ چلو ڈاکٹر صاحب کو بتا کر اس کا کوئی مستقل حل نکالیں ، ڈاکٹر حبیب سبحانی نے جب میرا بلڈ پریشر چیک کروایا تو 150/100 تھا ۔ مجھے بڑی حیر ت ہوئی کہ جب میری طبیعیت زیادہ خراب ہوتی ہے تو تب کتنا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی کچھ ٹیسٹ کروانے کو کہا شاید اس تجسس سے کہ اس عمر میں کیسے بلد پریشر ہائی ہو سکتا ہے ! کئی سوال پوچھے بیٹا آپ نے کوئی ٹینشن ہے ؟پڑھتے ہو ؟ ہاسٹل میں رہتے ہو ؟ پیپر ہونے والے ہیں ؟ سلیبس یاد نہیں ہو گا؟ باہر کے کھانے کھاتے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ جب میرے ٹیسٹ ہوئے انہوں نے ایک سرسری نظر رپورٹس پر ڈال کے مجھے ایک ہفتے کی دوائی لکھ دی، اور دوائی میں نے پورا ایک ہفتہ کھائی اس نیت سے کہ اب یہ معاملہ ٹھپ ہوجائے گا ، مگر وہی گھات کے تین پات۔۔ اور پھر نے میں سوچا بھاڑ میں جائے ۔ بس اب میں نے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا کیونکہ اول تو ڈاکٹرز کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ میری بات سنیں ، اگر سنتے ہیں تو آدھی ! کیونکہ ہر مریض کے لئے کچھ مخصوص وقت ہے اس سے اسے وقت نہیں مل سکتا، اور دوسرا یہ کہ اب میں تنگ آ گئی ہوں مجھ سے کوئی دوا نہیں کھائی جاتی۔۔
آخری تدوین: