ہائے ! مرجائیں گے ۔

ہائے ! مرجائیں گے
ہم تو لُٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو

آج جانے کی ضد نہ کرو

تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہوتم
تم کو اپنی قسم جان جاں
بات اتنی میری مان لو

آج جانے کی ضد نہ کرو

وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر ابھی جان جاں
عمر بھر نہ ترستے رہو

آج جانے کی ضد نہ کرو

کتنا معصوم و رنگیں ہے یہ سماں
حسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جان جاں
روک لو آج کی رات کو

آج جانے کی ضد نہ کرو

گیسوؤں کی شکن ہے ابھی شبنمی
اور پلکوں کے سائے بھی مدہوش ہیں
حسن معصوم کو جان جاں
بے خودی میں نہ رسوا کرو

آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو

ہائے مر جائیں گے ہم تو لٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
 
آخری تدوین:
Top