محمد شکیل خورشید
محفلین
میری فریاد میں اثر ہی نہیں
ہائے میں اَس کا منتظَر ہی نہیں
دل میں کیسے مکین ہو کوئی
اس مکاں میں تو کوئی در ہی نہیں
راستے اور بھی ہیں دنیا میں
اک فقط تیری رہگزر ہی نہیں
سانحہ اک گزر گیا ہے یہاں
جن پہ گزرا انہیں خبر ہی نہیں
اور بھی ہیں مقام سجدے کے
اے بتِ ناز تیرا در ہی نہیں
کس کی باتوں کا اعتبار کریں
شہر میں کوئی معتبر ہی نہیں
چل دیا کیوں شکیل اس جانب
اِس گلی میں تو اُس کا گھر ہی نہیں
محترم الف عین و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذرہائے میں اَس کا منتظَر ہی نہیں
دل میں کیسے مکین ہو کوئی
اس مکاں میں تو کوئی در ہی نہیں
راستے اور بھی ہیں دنیا میں
اک فقط تیری رہگزر ہی نہیں
سانحہ اک گزر گیا ہے یہاں
جن پہ گزرا انہیں خبر ہی نہیں
اور بھی ہیں مقام سجدے کے
اے بتِ ناز تیرا در ہی نہیں
کس کی باتوں کا اعتبار کریں
شہر میں کوئی معتبر ہی نہیں
چل دیا کیوں شکیل اس جانب
اِس گلی میں تو اُس کا گھر ہی نہیں