راحیل فاروق
محفلین
(نور سعدیہ شیخ کے ایک مراسلے پر کشتگانِ تمباکو کے ردِ عمل کے ردِ عمل میں آبدیدہ ہو کر لکھا گیا)
دنیائے منشیات میں سگرٹ کو جو امتیازی مقام حاصل ہے اس کی کچھ مسکت قسم کی وجوہ ہیں۔ لیکن پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ سگرٹ نوشی کیا ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سگرٹ نوشی کیا نہیں ہے۔ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس بعض اوقات اپنی کوتاہ بینی کے باعث سگرٹ نوشوں اور چرسیوں کو ایک ہی قوم سمجھ بیٹھتے ہیں جس سے پیدا ہونے والے خلطِ مبحث کا کوئی حل نہیں۔ پھر اگر اصیل قسم کے سگرٹ نوش مشتعل ہوں یا احتجاج کریں تو بدطینت مخالفین اسے گیس پر محمول کر کے ان کی باقی ماندہ براہینِ قاطعہ کو بھی یک قلم مسترد کر دیتے ہیں۔ اس درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کرنے سے شرفا کی عزتِ نفس کو جو ٹھیس پہنچتی ہے اسے کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔ نیز اس جذباتی استحصال کے ردِ عمل میں عین ممکن ہے کہ کچھ لوگ واقعی چرس پینا شروع کر دیتے ہوں۔ لیکن خیر، چرس نہ بھی شروع کریں تو کم از کم جوتم پیزار کی تو کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ طے کر لینے ہی میں جانبین کا فائدہ ہے کہ سگرٹ نوشی کیا نہیں ہے۔سب سے اہم معاملہ تو یہی سگرٹ اور چرس نوشوں کے مابین فرق کا ہے۔ اس فرق کو منطقی طور پر کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
ہر چرس نوش سگرٹ نوش ہوتا ہے۔
ہر سگرٹ نوش چرس نوش نہیں ہوتا۔
عوام پہلے قضیے کو تو خوب جانتے ہیں مگر دوسرے کی بابت کچھ مجرمانہ سی غفلت کا شکار ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دانستہ غور نہ کرتے ہوں کیونکہ عوام کی خواص دشمنی بھی مشہور ہے۔ بہرحال، اتمامِ حجت کے لیے ہم کچھ زود فہم مگر اظہر من الشمس علامات نقل کرتے ہیں جن سے ہر دو گروہ کا فرق بادی النظر میں معلوم کیا جا سکے گا۔ گو کہ ہمیں خبر ہے کہ مکار دشمن پھر بھی اپنے مذموم عزائم سے باز نہیں آئے گا لیکن کم از کم انصاف پسند طبائع کی ہمدردیاں تو ہمارے ساتھ ہو ہی جائیں گی۔ ہم اسی پر قناعت کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس!
تو صاحبو، پہلی بین علامت یہ سمجھ لیجیے کہ چرسی حضرات آپ کو کبھی اکیلے نظر نہیں آئیں گے۔ سیاستدان اکیلا تقریر کر سکتا ہے، سکھ اکیلا ڈیٹ پر جا سکتا ہے، بھانڈ اکیلا گا سکتا ہے مگر کوئی چرسی تنہا چرس نہیں پی سکتا۔ چرس مل بیٹھ کر اور مل بانٹ کر ہی پی جاتی ہے۔ زمانۂِ حال کے بعض آزاد بلکہ آزاد مصدر مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مارکس نے اشتراکیت کا تصور دراصل چرسیوں ہی سے مستعار لیا تھا۔ اس پر چرسی بھی مصر ہو گئے ہیں کہ مارکس کو فوت ہونے سے قبل دیانت دار لوگوں کی طرح یہ تصور ثابت و سالم واپس کرنا چاہیے تھا نیز یہ کہ اشتراکیت اسی بددیانتی کے متاثرین کی بددعاؤں کے طفیل ناکام ہوئی ہے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ چرسیوں کے ہاں تصور کا تصور غالباً کافی مختلف ہے۔ خیر، مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔
پھر یہ ہے کہ سلسلۂِ عالیہ چرسیہ عموماً نہایت مرنجاں مرنج قسم کے بزرگوں پر مشتمل ہے۔ بزرگ ہم نے اس لیے کہا کہ یہ شکل ہی سے زمانۂِ فراعین کے معلوم ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ ان کے اندر بلوغت اکثر و بیشتر منتہائے کمال کو پہنچی ہوئی پائی گئی ہے۔ یعنی پیروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ ایک صاحب کی مثال ہم آپ کی اور ان کی اپنی اجازت کے بغیر آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ صاحبِ موصوف جب پورے طور پر دھت ہو جاتے ہیں تو یک بیک ان کے ہونٹوں پر ایک گوتمی سی مسکراہٹ نمودار ہو جاتی ہے۔ بازیچۂِ اطفال ہے دنیا مرے آگے! اگر آپ اس وقت ان سے اس ناگہانی تبسم کی وجہ دریافت کرنے کی جسارت کریں گے تو یہ مسکراہٹ اور گہری ہو جائے گی۔ پھر وہ معاً اپنے انتہائی بائیں جانب بیٹھے کسی رفیق کے کان میں تقریباً داخل ہو جائیں گے، چھنگلی سے آپ کی جانب اشارہ کریں گے اور مدھر سی سرگوشی میں فرمائیں گے:
"ٹُن ہے!"
اس پر اگر آپ بھی ہماری طرح نجیب الطرفین واقع ہوئے ہیں تو لاجواب ہو جانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہیں اور کیا نہیں۔ لیکن ابلاغ سے مایوس لوگوں کو مژدہ ہو کہ ایک قادر الکلام شاعر نے یہ کفر بھی توڑ دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے ٹُن ہو جاتا ہوں------
اب میں اکثر میں نہیں رہتا، اُن ہو جاتا ہوں
آپ کو ہدایت ہے کہ ایسے مواقع پر اس شعرِ ناب کا کثرت سے ورد کر کے اختلاجِ قلب سے فوری نجات پائیں۔ پریشانی کی ویسے بھی کوئی بات نہیں کیونکہ حشیشین بھی لڑائی جھگڑے سے عموماً دور ہی بھاگتے ہیں۔ آپ کسی چرسی کو برا بھلا کہہ بھی بیٹھیں تو وہ انشاءاللہ پلٹ کر جواب نہیں دے گا۔ زیرِ لب حساب چکتا کر دے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے!اب میں اکثر میں نہیں رہتا، اُن ہو جاتا ہوں
اب آئیے بادہ و مینا کی جانب۔ سگرٹ نوش بفضلِ تعالیٰ دخترَ رز کے متوالوں سے بھی واضح امتیاز رکھتے ہیں۔ شراب نوشوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ خواہ بارہ برس دلی میں رہ کر بھاڑ ہی جھونکا کیے ہوں مگر پیتے ہی بلبلِ شیراز ہو جاتے ہیں۔ ایسے ایسے پرمغز اشعار سے آپ کی تواضع ہو گی کہ آپ کو سری پائے (اپنے بھی) بھول جائیں گے۔
مے خواروں کا جلال بھی مشہور ہے۔ ایک شادی پہ ہمیں خود اس کی تصدیق کا موقع میسر آیا۔ یادش بخیر، ایک مردِ حُر کو ہم نے دیکھا کہ پیتا جاتا ہے اور چلا چلا کر کہتا جاتا ہے:
یہ کوئی بات ہے بھلا؟ نہیں، یہ کوئی بات ہے بھلا؟
ایک اور مخمور جو اپنے تئیں اس سونامی کے آگے بند باندھے ہوئے تھا، نہات استقلال کے ساتھ ہر بارفقط اتنا عرض کرتا تھا:
نہیں۔ یہ کوئی بات نہیں!
اس دوران میں مردِ حُر اگلا گھونٹ لے لیتا تھا۔ وعلیٰ ہٰذا القیاس۔
معروف منشیات میں اب بھنگ، ہیروئن اور افیون وغیرہ کا بیان رہ گیا ہے۔ لیکن ان کی نشانیاں ہم بیان نہیں کر سکتے کیونکہ یہ مسکرات ہمارے اکثر دوستوں کے زیرِ استعمال نہیں رہیں۔ جن کے رہی ہیں وہ اکثر ہمارے بلکہ کسی کے بھی قابلِ استعمال نہیں رہے۔ اندازے سے رائے دی جا سکتی ہے لیکن اس سےخواہ مخواہ کسی بیچارے کی دلآزاری ہو جائے تو لعنت ہے۔ لہٰذا براہِ کرم عذر مسموع فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
ہمارے خیال میں یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کہ الحمدللہ، ثم الحمدللہ سگرٹ نوشی مندرجہ بالا تمام علائق سے مکمل طور پر منزہ و مبراہے۔ کوئی صاحب مبدءِ فیض سے کوئی علت لے کر پیدا ہو گئے ہوں تو کہہ نہیں سکتے مگر سگرٹ نوشوں پر من حیث المجموع اس قسم کا کوئی رکیک الزام قطعاً عائد نہیں کیا جا سکتا۔
ہائے صاحبو، اب وقت تھا کہ ہم وعدے کے مطابق سگرٹ کے محاسن پر مفصل بحث کا آغاز کرتے۔ مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بقولِ غالبؔ:
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے!
شاید کوئی صاحب فساد کی راہ سے کہیں کہ بھئی باقی تو صرف مدح ہی رہ گئی۔ دشمنوں کے لتے تو سب لینے کا وقت مل گیا ، ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری رائے میں اعلائے کلمۃ الحق سے قبل شر کا مکمل استیصال اشد ضروری ہے۔ اگر آپ کو ہمارے مؤقف سے اتفاق نہیں تو ہمیں بھی آپ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ آپ کے لیے اتنی ہی سزا کافی ہے کہ آپ یہاں تک کا مضمون بلاوجہ پڑھ آئے ہیں۔ اب چاہیے کہ آپ زور زور سے کفِ افسوس ملیں اور پھر غالبؔ کی طرح اسے عہدِ تجدیدِ تمنا وغیرہ کا نام دے کر معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی مدد کو نکل کھڑے ہوں۔ گٹ آؤٹ!پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خبیث تھا!
باقی ماندہ قارئین سے ہم استعارۃً دوزانو ہو کر عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے نہایت محترم ہیں۔ ہم خدانخواستہ ایسے آدمی نہیں کہ جذبات میں آ کر بھلے برے کی تمیز ہی بھول جائیں۔ اس بدمزگی پر شرمندہ ہونے کی آپ کو ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے کودن اور غبی لوگ بڑے بڑے شہروں میں بھی اپنی چراند پھیلانے سے باز نہیں آتے۔ اور وہ سعدیؔ نے کیا خوب کہا ہے کہخرِ عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
یعنی حضرت عیسیٰؑ کا گدھا اگر مکے سے بھی ہو آئے تو گدھے کا گدھے ہی رہتا ہے۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ ہمارے اس ادنیٰ سے مضمون کی بھلا کیا مجال ہو گی کہ ان کوڑھ مغزوں کو سیدھا کر سکے؟چوں بیاید ہنوز خر باشد
لیکن وقت اور اوراق کی قلت چونکہ ٹھوس مادی حقائق ہیں لہٰذا ان سے صرفِ نظر اچھی بات نہیں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سگرٹ نوشی کے تمام تر محاسن کو ایک حد درجہ بلیغ جملے میں بیان کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ یعنی وہ جملہ ایسا ہو کہ اس کے بعد کسی اور خوبی کے ہونے یا نہ ہونے کا سوال ہی سرے سے پیدا نہ ہو۔ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تاکہ بوقتِ ضرورت کسی اور موذی کو بھی رسید کی جا سکے۔ آہا، آپ چونکہ نہایت عالی فہم واقع ہوئے ہیں اس لیے شاید تاڑ گئے ہوں۔ جی ہاں، ہم سگرٹ کی بابت بس یہی کہنا چاہتے ہیں کہ
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
گو کہ ہمارا اللہ کی قسم پھانکنے کو بڑی شدت سے جی چاہ رہا ہے لیکن شرفا کی محفل میں ایسی ببانگِ دہل غلطی کی ہم سے توقع عبث ہے۔ ہم تو بس آپ کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ آپ محولہ بالا مقولے پہ جوں جوں غور کرتے جائیں گے توں توں اس کی صداقت آشکارا ہوتی چلی جائے گی۔ آزمائش شرط ہے۔ مروتاً ہی سہی!جاسمن آپا، نمرہ ، نیرنگ خیال ، ادب دوست ، آوازِ دوست ، نایاب صاحبان وغیرہ سے رسید مطلوب ہے!
آخری تدوین: