عبد الرحمٰن
محفلین
* ہائے یہ دو پل کی خوشی *!
صبح صبح بیگم اچانک بولیں:
’’اجی سنیے! آخر آپ *دوسری* کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘
چند لمحے تو ہمیں کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا… پھر دماغ نے کسی شرابی کی طرح لڑکھڑاتے ہوئے ان جادو بھرے الفاظ کو ڈی کوڈ کیا تو… ہم جہاں تھے، وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے… گویا ہینگ ہو گئے…
کسی بھی *بیگم* کا اتنا مسکراتے ہوئے، بل کھاتے ہوئے’دوسری‘ کی اجازت دینا… بلکہ ایک طرح خواہش کا اظہار کرنا… یا اللہ یہ تو کمال ہو گیا!
ہم حیرت سے گنگ سوچ رہے تھے… اگلے ہی لمحے ہم نے حیرت کو پرے جھٹکا اور خوشی سے ہمارا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا…چہار اطراف جیسے سینکڑوں شہنائیاں سی بجنے لگیں… درودیوار سہرہ پہنے دکھائی دینے لگے…من میں ہزاروں کلیاں کھل اٹھیں…اور ہم کسی بچے کی طرح مسرت سے کلکاری مار کر ہنس پڑے…
:
ہمارے نکلتے دانت دیکھ کر وہ ٹھٹکیں اور فورا ہی اپنی بیگمانہ ذہانت سے گویا بات کی تہہ تک پہنچ گئیں۔
فورا چمک کر بولیں۔
’’زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں… *دوسری نوکری* کی بات کر رہی ہوں… جس *دوسری* پر آپ خوش ہو رہے ہیں نا، اس کا تو گلا دبا دوں گی میں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ ہمارے چہرے کی ہنسی پھدک کر ان کے چہرے پر چلی گئی… اور ہم دوبارہ ہینگ ہو گئے…
اب وہ کسی بے رحم سفاک صیاد کی طرح فاتحانہ انداز میں ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھیں
صبح صبح بیگم اچانک بولیں:
’’اجی سنیے! آخر آپ *دوسری* کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘
چند لمحے تو ہمیں کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا… پھر دماغ نے کسی شرابی کی طرح لڑکھڑاتے ہوئے ان جادو بھرے الفاظ کو ڈی کوڈ کیا تو… ہم جہاں تھے، وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے… گویا ہینگ ہو گئے…
کسی بھی *بیگم* کا اتنا مسکراتے ہوئے، بل کھاتے ہوئے’دوسری‘ کی اجازت دینا… بلکہ ایک طرح خواہش کا اظہار کرنا… یا اللہ یہ تو کمال ہو گیا!
ہم حیرت سے گنگ سوچ رہے تھے… اگلے ہی لمحے ہم نے حیرت کو پرے جھٹکا اور خوشی سے ہمارا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا…چہار اطراف جیسے سینکڑوں شہنائیاں سی بجنے لگیں… درودیوار سہرہ پہنے دکھائی دینے لگے…من میں ہزاروں کلیاں کھل اٹھیں…اور ہم کسی بچے کی طرح مسرت سے کلکاری مار کر ہنس پڑے…
:
ہمارے نکلتے دانت دیکھ کر وہ ٹھٹکیں اور فورا ہی اپنی بیگمانہ ذہانت سے گویا بات کی تہہ تک پہنچ گئیں۔
فورا چمک کر بولیں۔
’’زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں… *دوسری نوکری* کی بات کر رہی ہوں… جس *دوسری* پر آپ خوش ہو رہے ہیں نا، اس کا تو گلا دبا دوں گی میں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ ہمارے چہرے کی ہنسی پھدک کر ان کے چہرے پر چلی گئی… اور ہم دوبارہ ہینگ ہو گئے…
اب وہ کسی بے رحم سفاک صیاد کی طرح فاتحانہ انداز میں ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھیں