کاشفی
محفلین
غزل
(بانی)
ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی
ذہن میں کچھ لکیریں تھیں، خاکہ نہ تھا۔ کچھ نشاں تھے نظر میں، علامت نہ تھی
زرد پتے کہ آگاہ تقدیر تھے، ایک زائل تعلق کی تصویر تھے
شاخ سے سب کو ہونا تھا آخر جُدا، ایسی اندھی ہوا کی ضرورت نہ تھی
اک رفاقت تھی زہریلی ہوتی ہوئی، راستہ منتظر خود دو راہے کا تھا
پھر وہ اک دوسرے سے جُدا ہو گئے، دونوں چپ تھے کہ دونوں کو حیرت نہ تھی
ایک آراستہ گھر میں تھا کب سے میں، ایک صدبرگ منظر میں تھا کب سے میں
میری خاطر تھیں کیا کیا ہنرکاریاں، اک نظر دیکھنے کی بھی فرصت نہ تھی
آج رکھا ہے لمحہ ترے ہاتھ پر، لمس اوّل کی لذت کو محفوظ کر
کل نہ کہنا فلک خوش تعاون نہ تھا، کل نہ کہنا زمیں خوبصورت نہ تھی!
کتنا پانی بہا لے گئی ندی، کتنے منظر اُڑا لے گئی ہے ہوا
اک خزانہ کہ اب تک نہ خالی ہوا، اک زیاں تھا کہ جس کی شکایت نہ تھی
ایک اک لفظ کے سینہء خشک سے فصل صد رنگ معنی اگانا پڑی
اپنی تقدیر میں کوئی ورثہ نہ تھا، نام اپنے کوئی وصیت نہ تھی
(بانی)
ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی
ذہن میں کچھ لکیریں تھیں، خاکہ نہ تھا۔ کچھ نشاں تھے نظر میں، علامت نہ تھی
زرد پتے کہ آگاہ تقدیر تھے، ایک زائل تعلق کی تصویر تھے
شاخ سے سب کو ہونا تھا آخر جُدا، ایسی اندھی ہوا کی ضرورت نہ تھی
اک رفاقت تھی زہریلی ہوتی ہوئی، راستہ منتظر خود دو راہے کا تھا
پھر وہ اک دوسرے سے جُدا ہو گئے، دونوں چپ تھے کہ دونوں کو حیرت نہ تھی
ایک آراستہ گھر میں تھا کب سے میں، ایک صدبرگ منظر میں تھا کب سے میں
میری خاطر تھیں کیا کیا ہنرکاریاں، اک نظر دیکھنے کی بھی فرصت نہ تھی
آج رکھا ہے لمحہ ترے ہاتھ پر، لمس اوّل کی لذت کو محفوظ کر
کل نہ کہنا فلک خوش تعاون نہ تھا، کل نہ کہنا زمیں خوبصورت نہ تھی!
کتنا پانی بہا لے گئی ندی، کتنے منظر اُڑا لے گئی ہے ہوا
اک خزانہ کہ اب تک نہ خالی ہوا، اک زیاں تھا کہ جس کی شکایت نہ تھی
ایک اک لفظ کے سینہء خشک سے فصل صد رنگ معنی اگانا پڑی
اپنی تقدیر میں کوئی ورثہ نہ تھا، نام اپنے کوئی وصیت نہ تھی