نیرنگ خیال
لائبریرین
یہ تحریر لکھی یکم جنوری 2024 کو تھی، لیکن حوصلہ نہیں تھا کہ پیش کروں۔ مجھے لگتا تھا کہ بہت منتشر تحریر ہے۔ اور شاید احباب کو لگے کہ بے ربط بھی ہے۔ خیال تھا کہ چھان پھٹک کر بہتر کر لوں گا، مگر اس ضمن میں بھی کچھ نہ کر سکا۔ آخر من و عن آپ کے احباب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف
بابا کو جب بھی دعا کرتے دیکھا تو دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر دعا کرتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوا کرتا ہے۔ کبھی ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی شرارت سے کہہ دیتا کہ بابا آپ کی ساری دعا گر گئی ہے۔ تو بابا ہنس دیتے، اور سر جھٹک کر کہتے احمق! ہم بھی یہ حماقت کا تمغہ پیشانی پر سجا کر ہنس دیتے۔ لیکن گزشتہ برس یعنی کہ کل تک یہ احساس بہت شدت اختیار کر گیا کہ دعائیں اوپر نہیں جا رہی ہیں۔ گر رہی ہیں۔ نیچے۔۔۔ جھولی میں۔۔۔ یا شاید زمین پر۔۔۔۔ دعا اوپر جا رہی ہے کہ نہیں، سائل کو اس سے کوئی سروکار باقی نہیں رہا ہے۔مسئول کی طرف سے بھی کوئی جواب آر ہا ہے یا نہیں۔ اس بارے سوچنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ عامیانہ پن سے فضا آلودہ ہے اور سطحی پن کی بارشوں نے ذہنوں کو سیراب کر رکھا ہے۔ الفاظ نوکیلے ہیں اور زبانیں دھاری دار۔ طاقت اپنے اظہار میں جس قدر بیباک ہے غربت بھی اپنی نمائش میں اتنی ہی نڈر ٹھہری ہے۔دولت جہاں عزت و قامت خریدنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے، عزت و قامت وہیں اسی وقت دیدہ زیب ملبوسات میں دل موہ لینے والی ادائیں دکھلاتی نظر آتی ہے۔
چھوٹے ہوتے ہم ترکی کے بارے میں سنتے تھے کہ وہاں داڑھی رکھنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ مساجد میں داڑھیاں رکھی ہیں۔ امام صاحب جماعت کروانے سے پہلے داڑھی لگا لیتے ہیں اور بعد از امامت وہیں منبر پر داڑھی رکھ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ جانے ان جھوٹی سچی کہانیوں کو ہم تک پہنچانے میں کیا فوائد پہنچانے والوں کی نظر میں تھے اور یہ باتیں کیوں کر گلی محلوں میں قصے کہانیوں کی شکل پہنچیں۔ لیکن اس سے ملتی جلتی صورتحال ہمارے ملک میں بھی موجود ہے۔ اختیار کا چوغہ دھرا ہے۔ آنے والے اختیار اور طاقت کے چوغے کو پہن لیتے ہیں۔ کوئی کیسا ہی ننگ اسلاف کیوں نہ ہو، جیسے ہی وہ اس چوغے کو پہنتا ہے، صاحب اسلاف ہوجاتا ہے۔ اس کی دائیں جیب میں اسلام اور بائیں جیب میں دنیا آجاتی ہے۔رہنمائی کے تمام طریق اس کی مٹھی میں بند ہوجاتے ہیں اورچنیدہ زبانیں اس کے قصیدوں کو قصہ باغ و بہار کی شکل بیان کرنے لگتی ہیں۔
لیکن میرا مسئلہ چنیدہ زبانیں نہیں ہیں، میرا مسئلہ عامی کی زبان ہے۔ وہ زبان جو اصل زبوں حالی کا شکار ہے۔ جس کے پاس نہ تو سوچنے کی اہلیت ہے اور نہ جاننے کی قابلیت۔ اگر یہ زباں اس چوغہ پہنے گروہ کے خلاف بول رہی ہے تو اثر اور معانی سے خالی ہے اور حق میں رطب اللساں ہے تو رکیک ہے۔ بھیڑ چال کا یہ عالم ہے کہ وہ عرب جو کہتے تھے ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کرتے سنا اور دیکھا، اس صورتحال میں حشر حشر پکار اٹھتے۔ علم اور سوچ قید میں ہے، جہالت اور تماش بینی کوچوں کی چودھراہٹ سنبھالے ہے۔ میں نے گزشتہ برس ایک شخص سے یہ سوال کیا کہ کیا فلاں جماعت کا رکن بننے کو عقل و شعور کا گروی رکھنا ضروری ہے؟ اس نے مجھے جوابا یہ کہا کہ جب بہاولپور میں اور صادق آباد میں سائیکل رکشے چلتے تھے، تب اس کے گھر کاریں تھیں۔ گو کہ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا، لیکن اگر کوئی شخص شعور کی بالکل عام سطح پر بھی ہوتا ، تو اسے معلوم ہوتا کہ اس تقابل کی حقیقت کیا ہے۔ لیکن پھر بات وہی ہے کہ اگر میرے پاس شعور ہوتا تو سوال کی نوبت ہی کیوں آتی ۔ کل ایک دوست فرما رہے تھے کہ میں اقوال بہت شوق سے پڑھتا رہتا ہوں اور تقریبا تمام مصنفین کے اسلوب بیاں پر ایک غائرانہ نظر رکھتا ہوں۔ گو کہ بات پوچھنے کی نہ تھی، مگر میں پھر بھی پوچھ بیٹھا کہ بھئی! یہ غائرانہ نظر انہیں اقوال کےعمیق مطالعے سے وجود میں آئی ہے کہ اصل میں بھی کچھ مکمل پڑھ رکھا ہے۔ سوال ختم ہوتے ہی مجھے اپنی حماقت کا ادراک ہوچکا تھا۔ حق ہمارے باب میں آسانیاں پیدا کرے۔
اس برس کے پہلے دن کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ ماضی کی ڈور پکڑے حال سے گزر کر مستقل تک کے سفر پر جاؤں گا۔پرانی باتیں یاد کروں گا۔ یادوں کے سفر پر مختلف لوگوں سے ملوں گا۔ وہ آوازیں جو ابھی تک سنائی دیتی ہیں، ان کو جواب دوں گا۔ وہ احباب جو مروت اور رواداریاں نبھاتے پیچھے رہ گئے ہیں، ان سے دکھ سکھ سانجھا کروں گا۔ آگے چلے جانے والوں کے تذکروں سے محفل آباد کروں گا۔ لیکن آج دیکھنے بیٹھا تو سب خالی تھا۔ ماضی کے سفر میں کوئی آواز باقی نہیں رہی ہے۔ مروت رواداری، اخلاقیات تو اس سفر میں ملے، لیکن لاوارث پڑے ملے۔ سب بہت آگے نکل چکے ہیں۔ مسائل کے ادراک سے آگے، شاید ان کے حل سے بھی گزر چکے ہیں۔ بااثر لوگوں نے جس طرح ننگا ناچ کھیلا ہے، قابل شرم ہے۔ پاکستان میں اب ایک ہی زبان ہے۔ اور وہ ہے بدمعاشی اور دھونس کی زبان ۔ انصاف سے لیکر اوصاف تک، سبھی اسی در کے بھکاری ہیں۔ اسی در سے ولایت پھوٹتی ہے، اسی در سے روایت جنم لے رہی ہے۔ان عامیانہ باتوں، سوقیانہ مزاجوں میں گھرے ہوئے، نئے سال کے پہلے دن میرے پاس کوئی دعا نہیں ہے۔ میرے ہاتھ ضرور پھیلے ہیں، لیکن یہ دعا کہیں لبوں سے پھسل کر نیچے میری ہی گود میں گر گئی ہے۔ اور وہاں سے پھسل کر زمین میں جا ملی ہے۔
نیرنگ خیال
یکم جنوری 2024
گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری 2023 کو لکھی گئی تحریر "سیکرٹ فرینڈ"
یکم جنوری ۲۰۲۱ کو لکھی گئی تحریر "یہ ہو تم"
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
بابا کو جب بھی دعا کرتے دیکھا تو دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر دعا کرتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوا کرتا ہے۔ کبھی ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی شرارت سے کہہ دیتا کہ بابا آپ کی ساری دعا گر گئی ہے۔ تو بابا ہنس دیتے، اور سر جھٹک کر کہتے احمق! ہم بھی یہ حماقت کا تمغہ پیشانی پر سجا کر ہنس دیتے۔ لیکن گزشتہ برس یعنی کہ کل تک یہ احساس بہت شدت اختیار کر گیا کہ دعائیں اوپر نہیں جا رہی ہیں۔ گر رہی ہیں۔ نیچے۔۔۔ جھولی میں۔۔۔ یا شاید زمین پر۔۔۔۔ دعا اوپر جا رہی ہے کہ نہیں، سائل کو اس سے کوئی سروکار باقی نہیں رہا ہے۔مسئول کی طرف سے بھی کوئی جواب آر ہا ہے یا نہیں۔ اس بارے سوچنے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ عامیانہ پن سے فضا آلودہ ہے اور سطحی پن کی بارشوں نے ذہنوں کو سیراب کر رکھا ہے۔ الفاظ نوکیلے ہیں اور زبانیں دھاری دار۔ طاقت اپنے اظہار میں جس قدر بیباک ہے غربت بھی اپنی نمائش میں اتنی ہی نڈر ٹھہری ہے۔دولت جہاں عزت و قامت خریدنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے، عزت و قامت وہیں اسی وقت دیدہ زیب ملبوسات میں دل موہ لینے والی ادائیں دکھلاتی نظر آتی ہے۔
چھوٹے ہوتے ہم ترکی کے بارے میں سنتے تھے کہ وہاں داڑھی رکھنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ مساجد میں داڑھیاں رکھی ہیں۔ امام صاحب جماعت کروانے سے پہلے داڑھی لگا لیتے ہیں اور بعد از امامت وہیں منبر پر داڑھی رکھ کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ اللہ جانے ان جھوٹی سچی کہانیوں کو ہم تک پہنچانے میں کیا فوائد پہنچانے والوں کی نظر میں تھے اور یہ باتیں کیوں کر گلی محلوں میں قصے کہانیوں کی شکل پہنچیں۔ لیکن اس سے ملتی جلتی صورتحال ہمارے ملک میں بھی موجود ہے۔ اختیار کا چوغہ دھرا ہے۔ آنے والے اختیار اور طاقت کے چوغے کو پہن لیتے ہیں۔ کوئی کیسا ہی ننگ اسلاف کیوں نہ ہو، جیسے ہی وہ اس چوغے کو پہنتا ہے، صاحب اسلاف ہوجاتا ہے۔ اس کی دائیں جیب میں اسلام اور بائیں جیب میں دنیا آجاتی ہے۔رہنمائی کے تمام طریق اس کی مٹھی میں بند ہوجاتے ہیں اورچنیدہ زبانیں اس کے قصیدوں کو قصہ باغ و بہار کی شکل بیان کرنے لگتی ہیں۔
لیکن میرا مسئلہ چنیدہ زبانیں نہیں ہیں، میرا مسئلہ عامی کی زبان ہے۔ وہ زبان جو اصل زبوں حالی کا شکار ہے۔ جس کے پاس نہ تو سوچنے کی اہلیت ہے اور نہ جاننے کی قابلیت۔ اگر یہ زباں اس چوغہ پہنے گروہ کے خلاف بول رہی ہے تو اثر اور معانی سے خالی ہے اور حق میں رطب اللساں ہے تو رکیک ہے۔ بھیڑ چال کا یہ عالم ہے کہ وہ عرب جو کہتے تھے ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کرتے سنا اور دیکھا، اس صورتحال میں حشر حشر پکار اٹھتے۔ علم اور سوچ قید میں ہے، جہالت اور تماش بینی کوچوں کی چودھراہٹ سنبھالے ہے۔ میں نے گزشتہ برس ایک شخص سے یہ سوال کیا کہ کیا فلاں جماعت کا رکن بننے کو عقل و شعور کا گروی رکھنا ضروری ہے؟ اس نے مجھے جوابا یہ کہا کہ جب بہاولپور میں اور صادق آباد میں سائیکل رکشے چلتے تھے، تب اس کے گھر کاریں تھیں۔ گو کہ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا، لیکن اگر کوئی شخص شعور کی بالکل عام سطح پر بھی ہوتا ، تو اسے معلوم ہوتا کہ اس تقابل کی حقیقت کیا ہے۔ لیکن پھر بات وہی ہے کہ اگر میرے پاس شعور ہوتا تو سوال کی نوبت ہی کیوں آتی ۔ کل ایک دوست فرما رہے تھے کہ میں اقوال بہت شوق سے پڑھتا رہتا ہوں اور تقریبا تمام مصنفین کے اسلوب بیاں پر ایک غائرانہ نظر رکھتا ہوں۔ گو کہ بات پوچھنے کی نہ تھی، مگر میں پھر بھی پوچھ بیٹھا کہ بھئی! یہ غائرانہ نظر انہیں اقوال کےعمیق مطالعے سے وجود میں آئی ہے کہ اصل میں بھی کچھ مکمل پڑھ رکھا ہے۔ سوال ختم ہوتے ہی مجھے اپنی حماقت کا ادراک ہوچکا تھا۔ حق ہمارے باب میں آسانیاں پیدا کرے۔
اس برس کے پہلے دن کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ ماضی کی ڈور پکڑے حال سے گزر کر مستقل تک کے سفر پر جاؤں گا۔پرانی باتیں یاد کروں گا۔ یادوں کے سفر پر مختلف لوگوں سے ملوں گا۔ وہ آوازیں جو ابھی تک سنائی دیتی ہیں، ان کو جواب دوں گا۔ وہ احباب جو مروت اور رواداریاں نبھاتے پیچھے رہ گئے ہیں، ان سے دکھ سکھ سانجھا کروں گا۔ آگے چلے جانے والوں کے تذکروں سے محفل آباد کروں گا۔ لیکن آج دیکھنے بیٹھا تو سب خالی تھا۔ ماضی کے سفر میں کوئی آواز باقی نہیں رہی ہے۔ مروت رواداری، اخلاقیات تو اس سفر میں ملے، لیکن لاوارث پڑے ملے۔ سب بہت آگے نکل چکے ہیں۔ مسائل کے ادراک سے آگے، شاید ان کے حل سے بھی گزر چکے ہیں۔ بااثر لوگوں نے جس طرح ننگا ناچ کھیلا ہے، قابل شرم ہے۔ پاکستان میں اب ایک ہی زبان ہے۔ اور وہ ہے بدمعاشی اور دھونس کی زبان ۔ انصاف سے لیکر اوصاف تک، سبھی اسی در کے بھکاری ہیں۔ اسی در سے ولایت پھوٹتی ہے، اسی در سے روایت جنم لے رہی ہے۔ان عامیانہ باتوں، سوقیانہ مزاجوں میں گھرے ہوئے، نئے سال کے پہلے دن میرے پاس کوئی دعا نہیں ہے۔ میرے ہاتھ ضرور پھیلے ہیں، لیکن یہ دعا کہیں لبوں سے پھسل کر نیچے میری ہی گود میں گر گئی ہے۔ اور وہاں سے پھسل کر زمین میں جا ملی ہے۔
نیرنگ خیال
یکم جنوری 2024
گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر
یکم جنوری 2023 کو لکھی گئی تحریر "سیکرٹ فرینڈ"
یکم جنوری ۲۰۲۱ کو لکھی گئی تحریر "یہ ہو تم"
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"