فاتح
لائبریرین
شاید دس بارہ برس قبل منی بیگم کی آواز میں قتیل شفائی کی ایک غزل سنی تھی۔۔۔ آج شام کو راہ چلتے اچانک اس کے اشعار ذہن میں گھومنے لگے اور ساتھ ہی ہمیں مزمل شیخ بسمل کا یہ سوال بھی یاد آ گیا:
قتیل شفائی کی یہ غزل بھی اسی بحر میں ہے جس میں درج بالا شعر۔
ہاتھ دیا اس نے مرے ہات میں
میں تو ولی بن گیا اک رات میں
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں
شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جذبات میں
ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں
ربط بڑھایا نہ قتیلؔ اس لیے
فرق تھا دونوں کے خیالات میں
قتیل شفائی