ہاتھ ملتے ہیں ہم ہاتھ خالی ہوئے

ہاتھ ملتے ہیں ہم ہاتھ خالی ہوئے
ایسے درویش ہیں جو سوالی ہوئے
آب سے کیا کہیں آپ عالی جناب
ہم ہی خبطی ہوئے ہم موالی ہوئے
بات کرنے سے بھی ہم تو ڈرتے ہم اب
مدعی چھپ گئے چور والی ہوئے
کتنے روتوں نے آخر کو چپ سادھ لی
کل ہرے تھے شجر آج ڈالی ہوئے
میرے غم تھے سہارا گھڑی دو گھڑی
پھر وہ نغمے بنے پھر قوالی ہوئے
مسکرائے تھے ہم آنکھ نم ہوگئی
کیا اسی بات پر وہ جلالی ہوئے
پہلے ہی کم نہ تھی تیرگی آپ کی
اب تو انداز بھی کچھ غزالی ہوئے
جا کہ جمشید صاحب سے خود پوچھئے
عشق میں کس قدر آپ عالی ہوئے
اسامہ جمشید
لاہور، دیسمبر ۲۰۱۶​
 
Top