ہاں ،قران مجید اللہ جل شانہ کا مبارک کلام ہے
چند دن قبل ایک برقی خط موصول ہوا ، جس میں ایک اعتراض کا ذکر ہو اتھا ۔
یہ اعتراض کسی دوسرئے چیز پر نہیں بلکہ اس ذات کے کلام مجید پر ہوا تھا ،جو ذات کُل کائنات کا خالق ،اور تمام جن و اِنس کا مالک اور ہر مخلوق کا رازق ہے ،چاہے وہ مخلوق اسکی اطاعت کرتا ہے یا اسکی نافرمانی۔اور اسکے علم میں ہر وہ بات ہے کہ جو اب تک وقوع میں آئی ہوں یا نہیں۔
اور وہ ذات باری تعالیٰ جو اندھیری رات میں اندھیرے بادلوں کے نیچے تاریک راہوں پر چلنے والی تاریکی سے بھر پور کالی چونٹی کی دل و دماغ میں گذرنے والے خیال تک کا علم رکھتی ہے۔
یعنی یہ اعتراض قران مجید پر ہوا تھا،وہ قران مجید جس کی صداقت پر آج تک کوئی حرف نہیں آسکا اور آج اس کلام کے دشمن بھی اس کلام کی سچائی اور کرامت کے معترف ہیں،بلکہ سرکشی کی حالت میں بھی اپنی قوم و ملت کی ترقی اور کامیابی کیلئے اسی کلام پاک سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔
چنانچہ ایک صاحب (جس کا نام تک میں لینے سے احتراز کرتا ہوں) کے ناپاک بلاگ پر ایک مضمون لکھا گیا ہے ،جس میں ایک آیت کے حوالے سے ایک اعتراض قران مجید کی صداقت پر کیا گیا ہے۔
اور اسکے لئے درج ذیل آیت کریمہ کو چُن لیا ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚوَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ (65)
الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
(66)(الانفال)
ترجمہ : اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے۔
اب الله نےتم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے پس اگر تم سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئيں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو الله کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئيں گے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اور اس آیت میں اس نکتےپر اعتراض کیا گیا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ( عَلِمَ) استعمال کیا ہے اور اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ابھی معلوم کرلیا )کہ مسلمانوں میں ضعف آگیا ہے۔ اسی لئے جھاد کے ایک حکم میں تخفیف کی گئی۔
تو معترض کا یقین یہ ہے کہ یہ کلام مجید اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کیلئے علم ازلی ثابت کیا جاتا ہے اور وہ عالم ا لغیب ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی ذات بقول مسلمانوں کے علیم و خبیرذات ہے۔
اور عالم الغیب ذات کو کس طرح ایک واقعے کا ( اب علم ہوا) کہ مسلمان ضعیف اور کمزور ہوگئے ہیں۔علیم و خبیر ذات کو پہلے سے ہی اگر مسلمانوں کے ضعف کا اگر پتہ تھا تو پہلے سے ہی حکم میں تخفیف کر دیتا۔
تو لھذا یہ بات لازم ہوئی کہ یہ قران مجید کسی انسان کا کلام ہے جس کو واقعات و حالات کا علم اس وقت ہو جاتا ہے جب واقعہ پیش آجاتا ہے۔کیونکہ عالم الغیب ذات ایسی غلطی نہیں کر سکتا۔
لیکن اعتراض کے جواب سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہونگا کہ علم دو قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک علم وہ ہے کہ کوئی بات ہمیں معلوم ہو لیکن وہ کام ابھی صادر نہیں ہوا۔مثلا کل سورج ضرور طلوع ہوگا۔یہ ہمارا یقین ہے ،لیکن کل کا سورج کا طلوع ہونا کسی کے مشاہدہ میں نہیں آیا ہے۔لیکن اس مشاہدے کے نہ ہونے سے ہمارئے یقین پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرا علم وہ کہ ایک بات ہمیں معلوم ہے اور معلوم ہونے کے بعد اسکا عملی مشاہد ہ بھی ہوجائے۔مثلا آج سورج طلوع ہوگیا ہے۔ہمارا یقین وہی ہے جو کہ گذشتہ کل تھا ،اسمیں کوئی کمی زیادتی نہیں واقع ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کا علم ازلی اور ابدی ہے اور وہ عالم الغیب ہے، کوئی چیز اسکے علم سے پنہاں نہیں ،وہ علیم و خبیر ذات ہے۔خود اللہ تعالیٰ قران مجید میں فرماتا ہے کہ
﴿ وَاتَّقُواْ اللهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ (البقرة: 231)
﴿ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴾ (آل عمران: 119)
﴿إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً ﴾ (النساء: 32).
إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (سورة الأحزاب ( 54 )
ہر وہ چیز جس کا وقوع ہوگا اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی مقدر کر دیا ہے،اور ہر مخلوق کی پیدائش سے قبل ہی اسکی خیر و شر کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔
اب بات یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ کو پہلے سے ایک بات کا علم قطعی ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہوگا اور یہ کام پیش آئے گا،تو یہ تو علم ازلی ہوا ۔اور اس علم ازلی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کسی کے سزا و جزا کا فیصلہ نہیں فرماتے ۔
اور جب واقعہ پیش آجاتا ہے ، اس علم کو عملی جامہ پہنا دیا جاتا ہے اور اس علم کو وجود دئے دیا جاتا ہے۔علم کا مشاہدہ ہو جاتا ہے اور اس مشاہدئے کے بعد اللہ تعالیٰ سزا و جزاء کا فیصلہ فرماتے ہیں تاکہ وہ واقعہ ہی اس فاعل کیلئے فیصلہ کُن بن جائے۔
علم مشاہدہ کےبھی کئی ثبوت قران مجید میں موجود ہیں جیسے کہ:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ﴾ (المائدة: 94)
ترجمہ: اے ایمان والو! البتہ ایک بات سے تمہیں آزمائے گا اس شکار سے جس پر تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچیں گے تاکہ الله معلوم کرے کہ بن دیکھے اس سے کون ڈرتا ہے پھر جس نے اس کے بعد زیادتی کی تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اب اس ایت میں جو اللہ تعالیٰ نے (معلوم کرنے) کی بات کی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے یہ بات نہیں تھی کہ کون نافرمان اور کون فرمان بردار ہے
بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو لسٹ ہے فرمان برداروں کی اور نا فرمانوں کی ، اس لسٹ کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے تاکہ علم ازلی کے ساتھ علم مشاہدہ بھی ہوجائے اور پھر اسی علم مشاہدہ کے سبب لوگوں کے جزا و سزا کے فیصلے ہوجائیں ۔تو یہ علم مشاہدہ بالکل بھی اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے ساتھ تعارض نہیں رکھتی۔
اور اسی بات کو خود اللہ تعالیٰ اس ایت میں بیان کرتا ہے کہ
﴿لِتَعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَأَنَّ الله بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾(المائدة: 97).
ترجمہ: یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
اس ایت کریمہ میں اللہ تعالیٰ صاف بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض کام اسی لئے کرتا ہے کہ لوگ جان لیں (ایک ایسی بات کو )جو اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ اور اسی لوگوں کو معلوم ہونے کے بعد یا علم مشاہدہ کے بعد ہی فیصلہ کرنا حکمت کا تقاضا ہے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
أَوَلَيْسَ اللهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ ` وَلَيَعْلَمَنَّ الله الَّذِينَآمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ﴾
(العنكبوت: 10-11)
ترجمہ: اور کیا الله جہان والوں کے دلوں کی باتوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہے۔اور البتہ الله انہیں ضرور معلوم کرے گا جو ایمان لائے اور البتہ منافقوں کو بھی معلوم کرکے رہے گا۔
اس آیت میں بھی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے علم کو عملی جامہ پہنا کر ،اسکو وجود دئے کر اور علم مشاہدہ سے اللہ تعالیٰ ثابت کرئے گا کہ کون مسلمان اور کون منافق ہے۔
اب آتے ہیں معترض کے پیش کردہ آیت کی طرف
الْآنَ خَفَّفَ اللَّ۔هُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ(الانفال ۔66)
ترجمہ: اب الله نےتم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور (معلوم کر لیا )کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے۔
اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ مسلمان کچھ عرصہ بعد جسمانی طور پر کمزور ہونگے ،اور پھر اس علم کو عملی جامہ بھی ایک موقع پر ملا۔اور علم ازلی اور علم ابدی کے ساتھ ساتھ علم مشاہدہ بھی وجود میں آگیا ،اور ظاہر ہے کہ فیصلے کسی علم کو عملی جامہ پہنانے کے بعد ہی ہوتے ہیں ،اسی لئے یہاں بھی( عَلِمَ۔معلوم کرلیا) سے مراد علم مشاہدہ ہے ، نا کہ علم مطلق یا علم غیب۔
لھذا اب کوئی اعتراض نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ مسلمان پہلے قوی ہونگے ،پھر کمزور تو اللہ تعالیٰ نے جب اپنے علم کو وجود دیا تو اسی کے مطابق فیصلہ بھی آگیا۔
نکتہ نمبر :2
اس بلاگ کا جو موڈریٹر ہے ،جس کا سہارالے کر یہ ملحد یا اسکے دوسرئے ساتھی اسلام اور اللہ تعالیٰ کے بارئے میں بے بنیاد شکوک و شبھات پھیلا رہے ہیں،تو یہ بندہ پہلے ملک پاکستان میں تھا پھر غربت کے سبب یہ در بدر پھرتا رہا اور آخر میں اسکو شائد یہ نسخہ ملا کہ اسلام کو چھوڑ کر ملحد اور دھریہ بن جاو تو ڈالروں کے انبار لگ جائیں گے ۔اور یہی اس بد بخت نے کیا اور اپنا نام سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین وغیرہ کی فہرست میں درج کرا دیا۔
اور بس پھر کیا تھا کہ بے سر و پا اعتراجات کرنے لگا اسلام اور ارکان اسلام پر۔جس کی ہر بات کا جواب اسکو دیا گیا۔ مخصوص لابی اس سے یہ کام کر وارہی ہے۔اور یہ عرصہ پرانے اعتراضات ہیں جو کہ اسلام مخالفین مختلف اسلامی فورموں پر کرکے منہ توڑ جواب پا چکے ہیں۔
۔
نکتہ نمبر:3
سال 2011 میں چند یہودیوں کی فنڈنگ سے ایک گستاخ نے امریکہ میں (مسلمانوں کی معصومیت )کے نام سے ایک فلم بنائی ،شان رسالت میں گستاخی کرکے۔
تو وہ فلم سکرین پر بری طرح ناکام ہوئی۔پھر اس فلم کو یوٹیوب پر ڈالا گیا ،لیکن کوئی انکو گھاس ڈالنے والا نہ ملا۔اسی کوشش میں سال گذر گیا لیکن انکی آرزو پوری نہ
ہوسکی ،انہوں نے گستاکانہ فلم تو بنا لیا لیکن فلم دکھاتے کس کو؟
سال 2012 میں انہوں نے ایک پلان بنا لیا اور پلان کے مطابق فلم کی عربی میں ڈبنگ کرکے اسکو بعض عرب سحافیوں کے پاس بھیجا ۔
عرب صحافیوں نے اس پر کالم لکھے اور فلم کے خلاف پروگرام کئے۔اوراحتجاجی مظاہرے کئے۔
چنانچہ اب فلم پروڈیوسر کی آرزو پوری ہونے لگی اور فلم کی تشھیر اس عالمی پیمانے پر ہوئی کہ فلم ساز خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
اور پھر نتیجہ آپکے سامنے ہے کہ اس فلم کے خلاف احتجاجوں میں کیا کیا نہیں کیا گیا۔اور کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوا۔
میں اس گستاخ فلم ساز کے ساتھ ساتھ ان عرب صحافیوں کو بھی قصور وار ٹھراتا ہوں کہ جن کے غلط منصوبہ بندی سے ایک فلاپ فلم آسمان کو چھونے لگی اور جو کام فلمساز اور یہودی نہ کرسکے وہ بے خبری اور لا علمی میں عرب صحافی کر پائے۔
کچھ ایسا ہی قصہ اس ملحد معترض کا بھی ہے جو کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے اور ڈالر کمانے کیلئے اپنے بلاگ پر پوسٹ تو لکھتا ہے لیکن اسکا بلاگ بری طرح فلاپ ہوجاتا ہے ،لیکن ہم سادہ لوح مسلمانوں کی سادگی کے سبب اسکی بلاگ کی اتنی مشہوری ہوئی برقی خطوط کے ذریعے کہ اسکے بلاگ کی ریٹنگ آسمان کو چھونے لگتی ہے۔
اگر کوئی ساتھی کہے کہ جناب ہم نے اپنے علم کی زیادتی اسکو لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔
اسکی خدمت میں عرض ہے کہ جناب علم کی زیادتی کیلئے اور ذہنی نشو نما کیلئےچند ایسے ساتھیوں کے سامنے ہی اگر یہ کالم لاتے ،جو کہ اس کالم نگار کی حقیقت اور اصلیت سے واقف ہیں،اور پہلے بھی اسکی حرکتوں کا جواب دے چکے ہیں تو ان شاء اللہ کام بن جاتا ۔
لیکن 100 لوگوں کو اس گستاخ مضمون کا لنک بھیجنا شائد وہی عرب صحافیوں والا کام ہے۔
(نوٹ: یہ میری ذاتی رائے ہے،ساتھی بلاگرز بلا کسی جھجک اسکی تصحیح کرا سکتے ہیں۔)