اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _
غزل
ہاں ! اسے پانے کی حسرت ابھی بھی دل میں ہے
ہاں ! وہ ٹیوشن کی محبت ابھی بھی دل میں ہے
یہ الگ بات کہ اب شور مچاتی ہی نہیں
ورنہ وہ پہلی سی وحشت ابھی بھی دل میں ہے
آپ کو دیکھے ہوئے ہو گئی مدّت لیکن
آپ کے چہرے کی رنگت ابھی بھی دل میں ہے
ہو ملاقات اگر اس سے تو میں پوچھوں گا
میری الفت ، مِری چاہت ابھی بھی دل میں ہے ؟
کر دے بس ایک اشارا کہ دکھا دوں سب کو
تیرے گھر آنے کی جرأت ابھی بھی دل میں ہے
ہو گئے ختم سبھی شکوے گِلے سچ میں نا !
یا کوئی اور شکایت ابھی بھی دل میں ہے ؟
میں نے کھویا تجھے کس طرح مجھے یاد ہے سب
بس یہی ایک ندامت ابھی بھی دل میں ہے
دل میں جس چاند سی صورت کو بسایا تھا کبھی
ہاں ! وہی چاند سی صورت ابھی بھی دل میں ہے
نزع کے وقت بہت خوش ہوں ، نہ کیوں ہوں اشرف
دیکھ ! ایمان کی دولت ابھی بھی دل میں ہے
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _
غزل
ہاں ! اسے پانے کی حسرت ابھی بھی دل میں ہے
ہاں ! وہ ٹیوشن کی محبت ابھی بھی دل میں ہے
یہ الگ بات کہ اب شور مچاتی ہی نہیں
ورنہ وہ پہلی سی وحشت ابھی بھی دل میں ہے
آپ کو دیکھے ہوئے ہو گئی مدّت لیکن
آپ کے چہرے کی رنگت ابھی بھی دل میں ہے
ہو ملاقات اگر اس سے تو میں پوچھوں گا
میری الفت ، مِری چاہت ابھی بھی دل میں ہے ؟
کر دے بس ایک اشارا کہ دکھا دوں سب کو
تیرے گھر آنے کی جرأت ابھی بھی دل میں ہے
ہو گئے ختم سبھی شکوے گِلے سچ میں نا !
یا کوئی اور شکایت ابھی بھی دل میں ہے ؟
میں نے کھویا تجھے کس طرح مجھے یاد ہے سب
بس یہی ایک ندامت ابھی بھی دل میں ہے
دل میں جس چاند سی صورت کو بسایا تھا کبھی
ہاں ! وہی چاند سی صورت ابھی بھی دل میں ہے
نزع کے وقت بہت خوش ہوں ، نہ کیوں ہوں اشرف
دیکھ ! ایمان کی دولت ابھی بھی دل میں ہے