کالم نگار : جاوید چودھری
آپ املیش یادو کی مثال لیجیے‘ املیش بھارتی ریاست اتر پردیش اسمبلی کی رکن تھیں‘ انھوں نے اپریل 2007ئمیں بسائولی کے حلقے سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہو گئیں‘ ان کے مخالف امیدوار یوگندرا کمار نے 2011ء میں پریس کونسل میں شکایت کی ‘املیش یادو نے دو اخبارات میں پیسے دے کر اپنی تشہیری خبریں لگوائیں‘پریس کونسل نے تحقیقات کے بعد ان کی شکایت کو درست قرار دیا‘ معاملہ بھارتی الیکشن کمیشن کے سامنے آیا اور الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا’’ املیش یادو نے تشہیری خبریں لگوانے کے لیے اکیس ہزار دو سو پچاس روپے ادا کیے۔
املیش نے یہ رقم اپنے انتخابی اخراجات میں ظاہر نہیں کی چنانچہ الیکشن کمیشن نہ صرف ان کی رکنیت منسوخ کرتا ہے بلکہ انھیں تین برسوں کے لیے نا اہل بھی قرار دیتا ہے‘‘۔ یہ بھارت میں اس نوعیت کی واحد مثال نہیں ‘ بھارتی الیکشن کمیشن کے پاس صدر اور وزیراعظم سے زیادہ اختیارات ہیں اور بھارت میں ان اختیارات کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے اور نہ ہی ان سے انحراف‘ ہماری حکومتیں ہر الیکشن سے قبل نگراں حکومت کے لیے دست و گریباں ہوتی ہیں‘ حکومت اور اپوزیشن کی کوشش ہوتی ہے اپنی مرضی کا نگراں وزیراعظم لائیں تاکہ یہ الیکشن میں ان کی مدد کرے مگر بھارت نے آج سے63برس قبل یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
انڈیا میں الیکشن سے قبل نگراں حکومتیں نہیں بنتیں ‘ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت کے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جاتے ہیں اور حکومت اس کے بعد کسی افسر کا چنائو نہیں کرسکتی اور نہ ہی فنڈز جاری کر سکتی ہے۔ انڈیا میں الیکشن کمیشن اس قدر مضبوط ہے کہ ہماچل میں 2012ء کے الیکشن کے دوران بی جے پی کی حکومت نے راشن کارڈ ہولڈرز میں پٹ سن کے ایسے تھیلے تقسیم کرنا شروع کر دیے تھے جن پر واجپائی کی تصویر چھپی تھی ‘ ہماچل میں2007ئسے 2012ء تک بی جے پی کی حکومت رہی۔
حکومت نے اپنے دور میں 16لاکھ لوگوں کو راشن کارڈز الاٹ کیے‘ ان لوگوں کو خوراک میں سبسڈی ملتی تھی‘ یہ بی جے پی کی حکومت کا بڑا کارنامہ تھا چنانچہ حکومت نے پٹ سن کے 16لاکھ تھیلے بنوائے اور یہ تھیلے راشن ڈپو پر رکھوا دیے‘ عوام کو یہ تھیلے مفت دیے جانے تھے ‘ الیکشن کمیشن کو 8 اکتوبر 2012کو ان تھیلوں کی اطلاع ملی‘ الیکشن 4 نومبر کو ہونا تھا‘کمیشن نے فوراً تھیلوں کی تقسیم پر پابندی لگا دی اور حکومت کو وارننگ دی اگر یہ تھیلے فوری طور پر ڈپوئوں سے نہ اٹھائے گئے تو الیکشن کمیشن بی جے پی کے تمام امیدواروں کو نا اہل قرار دے دے گا‘ حکومت نے بارہ گھنٹوں میںتمام تھیلے اٹھالیے‘ واجپائی کے دور میں اس نوعیت کا ایک اور واقعہ پیش آیا ‘و اجپائی کے دور میںکسی حلقے میں ضمنی الیکشن ہو رہا تھا‘ الیکشن سے قبل وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ریاستی دورے پر جا رہے تھے۔
اسٹاف نے دورے کے دوران وزیراعظم کااس حلقے میں اسٹاپ اوور رکھ دیا‘ اسٹاف کا خیال تھا وزیراعظم چند لمحوں کے لیے وہاں رک جائیں گے تو بی جے پی کا امیدواریہ الیکشن جیت جائے گا ‘ الیکشن کمیشن کو اطلاع ملی تو اس نے وزیر اعظم کا ’’اسٹاپ اوور‘‘ختم کرا دیااور واجپائی نے الیکشن کمیشن کے حکم کے سامنے سر خم کر دیا‘ بھارت نے 1950ء میں الیکشن کمیشن بنا یا تھا اور یہ اختیارات اسے اسی وقت سونپ دیے گئے تھے‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی الیکشن کمیشن ان اختیارات میں اضافہ بھی کرتا رہا اور اپنی رٹ بھی مضبوط بناتارہا یہاں تک کہ یہ آج اس قدر پاورفل ہو چکا ہے کہ اس نے 2009ء کے الیکشن میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے 3275 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اخراجات کی تفصیل نہ دینے ‘ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے اور کرپشن کے الزامات کی وجہ سے مسترد کر دیے۔
انڈیا کا الیکشن کمیشن دنیا کا سب سے بڑا الیکشن کمیشن ہے‘ اس کے اسٹاف میں 5کروڑ سے زائد لوگ شامل ہیں ‘ یہ ساڑھے آٹھ لاکھ پولنگ اسٹیشن بناتا ہے اور یہ 71کروڑ ووٹروں کو ووٹ کا حق دیتا ہے‘ الیکشن کمیشن اس قدر مضبوط ہے اگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کسی عوامی نمایندے کے بارے میں کرپشن کے ثبوت آجائیں تو یہ ثبوت کمیشن کو بھجوا دیتی ہیں اور الیکشن کمیشن اس پر جو فیصلہ کرتا ہے اسے وزیراعظم ‘صدر حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی تاہم امیدوار سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل کر سکتا ہے۔
ہمارے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم اور ان کے چار ساتھی بھارت کی اس اسپرٹ کے ساتھ 2013ء کے الیکشن کرانا چاہتے ہیں ‘ فخر الدین جی ابراہیم کو لوگ پیارسے فخرو بھائی کہتے ہیں‘ یہ ملک کے نامور قانون دان اور سابق گورنر سندھ ہیں ‘ یہ1981ء میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تھے‘ جنرل ضیاالحق نے 1981ء میں ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا ‘ فخروبھائی نے انکار کر دیا اور یوں ’’نوکری‘‘ سے فارغ ہو گئے ‘یہ انتہائی ایماندار‘ سیدھے اور کھرے انسان ہیں‘ یہ زندگی کی 85 بہاریں دیکھ چکے ہیں مگر یہ اس کے باوجود توانا اور چست و چالاک ہیں‘ فخر الدین جی ابراہیم کا نام الیکشن کمشنر کے لیے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی نے پیش کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے تعین کے لیے12رکنی کمیٹی بنی‘ کمیٹی میں اپوزیشن کے ارکان کی تعدادپانچ تھی ‘حکومتی ارکان 3 تھے جب کہ باقی ارکان کا تعلق دیگر پارٹیوں سے تھا‘ اپوزیشن نے فخرو بھائی کے ساتھ جسٹس(ریٹائرڈ) شاکر اللہ جان اور جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر اسلم زاہد کا نام بھی پیش کیا تھا‘ حکومت اقلیت میں تھی یہ اپنا نمایندہ منتخب نہیں کرا سکتی تھی‘ اس نے اپوزیشن کے دیے ناموں ہی سے کسی کا انتخاب کرنا تھا‘ اپوزیشن جسٹس (ریٹائرڈ) شاکر اللہ جان کو الیکشن کمشنر بنوانا چاہتی تھی‘ اس نے فخرو بھائی کا نام پینل کو بڑا اور معتبر بنانے کے لیے شامل کیا تھا‘ حکومت کو اپوزیشن کی خواہش کا علم ہو گیا‘ اس نے تمام ناموں کا تجزیہ کیا تو اسے فخرو بھائی وہ شخصیت نظر آئے جو آنے والے دنوں میں اپوزیشن کے قابو بھی نہیں آسکتے تھے۔
لہٰذا صدر نے سینیٹر اسلام الدین شیخ کو تیار کیا‘ 9 جولائی2012ء کو کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اسلام الدین شیخ نے فخرو بھائی کی تائید کر دی‘ اے این پی نے فوراً اتفاق کر دیا اور یوں اپوزیشن کے ارکان منہ دیکھتے رہ گئے‘ فخرو بھائی کہنے کو تو اپوزیشن کے تجویز کردہ ہیں مگر یہ اپنی نوعیت کے آزاد اور خودمختار شخص ہیں چنانچہ آج پاکستان مسلم لیگ ن ان کی الیکشن اصلاحات کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہے‘ فخرو بھائی نے کاغذات نامزدگی میں 10 نئے نکات ڈال دیے ہیں‘ ان نکات کے مطابق امیدوار کو اب بینک سے لیے جانے والے 20لاکھ روپے سے زائد کے قرضے بتانا ہوں گے‘ معاف کرائے گئے قرضوں کی تفصیل بتانا ہوگی۔
چھ ماہ پہلے تک کے کریمنل کیسز‘ تین سال کی ٹیکس ادائیگیاں‘اپنے اور اپنے اہل خانہ کے غیر ملکی دوروں‘ زرعی ٹیکس‘ پارٹی ٹکٹ کے لیے دیے گئے پیسوں‘ دوہری شہریت اور اگر امیدوار اس سے قبل رکن اسمبلی رہا تو اسے اپنے دور میں اپنے حلقے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تفصیل بتانا ہو گی‘ یہ نکات پاکستانی الیکشن کمیشن کو انڈین الیکشن کمیشن کے برابر لے جا رہے ہیں اور یہ ظاہر ہے ہمارے سیاستدانوں کے لیے قابل قبول نہیں لہٰذا ملک میں کہرام برپا ہوچکا ہے اور اس کہرام میں سب سے اونچی چیخ پاکستان مسلم لیگ ن کے منہ سے نکل رہی ہے کیونکہ اگر الیکشن کمیشن نئے فارموں کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ کرتی ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن کے وہ تمام امیدوار نا اہل ہو جائیں گے جو الیکشن جیتنے کے چکر میں دوسری پارٹیاں چھوڑ کر دیوانہ وار ن لیگ میں شامل ہورہے ہیں۔
ان میں سے اکثر پر کریمنل کیسز بھی ہیں‘ انھوں نے قرضے بھی معاف کروائے ہیں‘ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم جیسے لوگوں نے پانچ سال ملک سے باہر گزارے ہیں‘ یہ ٹیکس بھی جمع نہیں کراتے رہے‘ ان میں سے اکثریت کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تک موجود نہیں اور انھوں نے ٹکٹ کے حصول کے لیے پارٹی کو کروڑوں روپے چندہ بھی دیا چنانچہ یہ لوگ الیکشن کمیشن کی پکڑ میں آ جائیں گے ‘ن لیگ فخرو بھائی کی نئی اصلاحات سے سراسیمگی کا شکار ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی بغلیں بجا رہی ہے‘ پیپلز پارٹی کے اکثر وزرا سر عام کہتے دکھائی دیتے ہیں ’’ الیکشن اب نہیں ہوں گے‘‘ ان سے پوچھا جائے ’’ کیوں‘‘ تو ان کا جواب ہوتا ہے ن لیگ عنقریب اپنے ہی الیکشن کمشنر کے شکنجے میں آ جائے گی اور یہ خود چاہے گی الیکشن ملتوی ہو جائیں۔
مجھے کل حکومت کے ایک اہم نمایندے نے بتایا حکومت نگراں وزیراعظم کے معاملے میں بھی فخرو بھائی جیسا کارڈ کھیلے گی‘ حکومت نے اپوزیشن کے دیے ناموں سے ایک ایسا شخص چن لیا ہے جسے ن لیگ نگراں وزیراعظم نہیں بنوانا چاہتی چنانچہ اپوزیشن نے اگر حفیظ شیخ یا ڈاکٹر عشرت حسین کو قبول نہ کیا تو حکومت ن لیگ کے دیے ناموں میں اس شخص کے نام پر ہاتھ رکھ دے گی اور یوں وہ نگراں وزیراعظم‘ فخر الدین جی ابراہیم کے ساتھ مل کر ن لیگ کا بینڈ بجا دے گا اور اپوزیشن کے پاس اعتراض کی گنجائش بھی نہیں ہو گی‘ میں نے جوں ہی یہ سنا‘ میرے منہ سے قہقہہ نکلا ہا‘ ہا‘ ہا اور میں نے اس سے کہا ’’ پاکستان میں آج تک واقعی آصف علی زرداری سے بڑا سیاستدان پیدا نہیں ہوا‘ جئے بھٹو اور کھپے آصف علی زرداری‘‘
بشکریہ:ایکسپریس
 
میر ی رائے میں جاوید کی رائے نری بکواس ہے۔ یہ نرم ترین الفاظ ہیں
یہ رائے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت لوگ پھیلانا چاہتے ہیں جو دراصل ایک غیر سیاسی ادارے اور ان کے 'ٹھیکیداروں' بلکہ ملک ٹھیکیدار کے تنخواہ دار ہیں
 

نایاب

لائبریرین
انڈین الیکشن کمیشن کے معیار تک پہنچنا تو پاکستان کے الیکشن کمیشن کے لیئے ناممکن ہے ۔ جو فارم چھپ چکے اگر یہی تبدیلیوں سے بچ گئے تو " فخرو بھائی " کی جیت ہوگی ۔ کرپشن کے خلاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک زرداری سب پہ بھاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مقولہ تو کھلے طور زرداری نے سچ ثابت کردکھایا ۔۔۔
سب لٹیروں مفاد پرستوں کو پورے پانچ سال خوب نچایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خود " ویل " سمیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top