ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ محفل ! اب مرے توشۂ سخن میں چند آخری غزلیں ہی رہ گئی ہیں ۔ انہیں بھی جلد ی سے آپ کی بصارتوں کی نذر کرکے اس کام سے فارغ ہوا چاہتا ہوں جو تقریباً دو سال قبل شروع کیا تھا ۔ ایک بہت ہی پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔
ہجراں میں دربدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد
دیدی گئی زمین ہمیں جنّتوں کے بعد
چھینے گا اور مجھ سے غمِ روزگار کیا !
دامن میں کیا بچا ہے بھلا حسرتوں کے بعد
ہو آئے اُس گلی میں تماشہ بنے ہوئے
فرصت ملی تھی آج بڑی مدتوں کے بعد
معمارِ ارضِ نو بھی وہی لوگ تھے جنہیں
اک مشتِ خاک بھی نہ ملی ہجرتوں کے بعد
تعمیرِ نو میں شہر کی اتنا رہے خیال
ٹوٹی فصیل بھی ہے شکستہ چھتوں کے بعد
سفّاک دن ہیں گھات میں بیٹھے ہوئےظہیرؔ
اک حملۂ غنیم ہے اِن جگ رتوں کے بعد
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔ ۱۹۹۹
ہجراں میں دربدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد
دیدی گئی زمین ہمیں جنّتوں کے بعد
چھینے گا اور مجھ سے غمِ روزگار کیا !
دامن میں کیا بچا ہے بھلا حسرتوں کے بعد
ہو آئے اُس گلی میں تماشہ بنے ہوئے
فرصت ملی تھی آج بڑی مدتوں کے بعد
معمارِ ارضِ نو بھی وہی لوگ تھے جنہیں
اک مشتِ خاک بھی نہ ملی ہجرتوں کے بعد
تعمیرِ نو میں شہر کی اتنا رہے خیال
ٹوٹی فصیل بھی ہے شکستہ چھتوں کے بعد
سفّاک دن ہیں گھات میں بیٹھے ہوئےظہیرؔ
اک حملۂ غنیم ہے اِن جگ رتوں کے بعد
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔ ۱۹۹۹