ہجرت ۔۔ نظم اصلاح و تنقید کے لئے۔۔۔۔

السلام علیکم
ایک مختصر نظم اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں...
نظم کا عنوان ہے "ہجرت" ..
نظم کی بحر ہے:
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعِلن

اساتذہء کِرام
محترم جناب الف عین صاحب
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
اور احباب محفل کی توجہ کا طالب ہوں۔
--------------------------------------
اب اُسی بستی کی ہجرت کا ارادہ ہے جہاں
شرفِ سادات ہو محفوظ، نہ ہو جان کا ڈر

ایسی بستی، کہ ہو ساتھی نہ پرانا رشتہ رہ کے گمنام جیئں ہم، نہ ہو پہچان کا ڈر

ہو کے بے فکر گزاریں وہاں باقی ایّام
نہ تو چوری کا ہی خطرہ ہو نہ سامان کا ڈر

ماں کے آغوش کے جیسی ہو سکوں بخش فضا
نہ تکلّف کی روایت ہو نہ احسان کا ڈر

ہم کو اِس دور کی تہذیب نے مارا یارو
ہم کہ انساں ہیں مگر رہتا ہے انسان کا ڈر
 

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں نظم کا موضوع ایک آیڈیل بستی کا تصور ہے، جہاں ہجرت کاارا دہ کیاجاسکتا ہے۔ بذات خود ہجرت موضوع نہیں۔ جو اسے عنوان بنایا جائے
پہلے شعر میں شرف سادات کی کیا خصوصیت؟
دوسرا۔۔ پہچان کا ڈر تو ماناجا سکتا ہے لیکن یہاں جمع کے صیغے کے ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ محض ایک ساتھی کی نہیں۔
ایسی بستی، کہ ہوں ساتھی نہ پرانے رشتے
شعر نمبر 3 میں سامان کا ڈر کس طرح ہو سکتا ہے، سمجھ میں نہیں آیا
نمبر4، ’ماں کی آغوش سی‘ (کے آغوش نہیں۔) میں ہی بات واضح اور چست ہو جاتی ہے۔ غیر ضروری الفاظ کی جگہ فضا کے لئے صفات تلاش کرو۔ تکلف کی روایت اور احسان کا ڈر بھی پسند نہیں آئے۔
 
Top