ہجر کی راتیں نہ کٹتی تھیں کسی تدبیر سے

نمرہ

محفلین
ہجر کی راتیں نہ کٹتی تھیں کسی تدبیر سے
گفتگو کرتے رہے ہیں ہم تری تصویر سے

دام میں آتا ہے طائر خوبی تقدیر سے
آپ کو شکوہ عبث ہے زلف عنبر گیر سے

جانے انجانے میں اس کو پھر گرا جائیں گے لوگ
فائدہ دل کی عمارت کی دگر تعمیر سے

اپنی حیثیت سے بڑھ کر دیکھتے تھے خواب ہم
اب الجھتے پھر رہے ہیں خواب کی تعبیر سے

مسکرا کر حال کیا پوچھا کسی نے ایک دن
ہم تو اب رہنے لگے ہیں خواہ مخواہ دلگیر سے

دشت میں تنہائی کے مارے پھرا کرتے ہیں ہم
ورنہ کیا نسبت ہمیں ہے عشق کی تقصیر سے

اشک شور انگیز لے کر آج واں جاتے ہیں ہم
اک نہ بن پائی جہاں پر آج تک تحریر سے

عشق کے شعلے میں جلنا مختلف اک چیز ہے
دور سے لکھی گئی اس آنچ کی تفسیر سے

آئنے سے بڑھ کے دے گا کون پھر ہم کو جواب
بات ہم کرنا جو چاہیں ایک دانا پیر سے

جھیلتے ہیں زندگی کے زخم بس اس آس میں
ایک دن کہنے لگیں گے شعر شاید میر سے
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top