سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
گر اجازت تری ہوتی میں کہانی لکھتا
تیرا بچپن تری معصوم جوانی لکھتا
ڈھانپ کر اپنی وفاؤں کی ردا سے تجھ کو
ہجر کی رت میں کوئی شام سہانی لکھتا
کچھ مری سنتا کچھ اپنی بھی سناتا مجھ کو
قصئہِ درد مَیں پھر تیری زبانی لکھتا
ہائے بارود کی بدبو سے پرندوں کے لئے
کیسے گلشن سے ہوئی نقل مکانی لکھتا
دورِ حاضر کے تھپیڑوں سے جو فرصت ملتی
پھر ترے ہجر کی روداد پرانی لکھتا
لمحہ بھر کو ترا آنچل جو میسر ہوتا
میرے اشکوں کی ہے کیا وجہِ روانی، لکھتا
وہ جو سجاد ترقی کی نظر ہوتی گئی
کیا رہِ وصل کی اک اک مَیں نشانی لکھتا
یاسر شاہ
سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
گر اجازت تری ہوتی میں کہانی لکھتا
تیرا بچپن تری معصوم جوانی لکھتا
ڈھانپ کر اپنی وفاؤں کی ردا سے تجھ کو
ہجر کی رت میں کوئی شام سہانی لکھتا
کچھ مری سنتا کچھ اپنی بھی سناتا مجھ کو
قصئہِ درد مَیں پھر تیری زبانی لکھتا
ہائے بارود کی بدبو سے پرندوں کے لئے
کیسے گلشن سے ہوئی نقل مکانی لکھتا
دورِ حاضر کے تھپیڑوں سے جو فرصت ملتی
پھر ترے ہجر کی روداد پرانی لکھتا
لمحہ بھر کو ترا آنچل جو میسر ہوتا
میرے اشکوں کی ہے کیا وجہِ روانی، لکھتا
وہ جو سجاد ترقی کی نظر ہوتی گئی
کیا رہِ وصل کی اک اک مَیں نشانی لکھتا