ہجر کی رت میں کوئی شام سہانی لکھتا

سر الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

گر اجازت تری ہوتی میں کہانی لکھتا
تیرا بچپن تری معصوم جوانی لکھتا

ڈھانپ کر اپنی وفاؤں کی ردا سے تجھ کو
ہجر کی رت میں کوئی شام سہانی لکھتا

کچھ مری سنتا کچھ اپنی بھی سناتا مجھ کو
قصئہِ درد مَیں پھر تیری زبانی لکھتا

ہائے بارود کی بدبو سے پرندوں کے لئے
کیسے گلشن سے ہوئی نقل مکانی لکھتا

دورِ حاضر کے تھپیڑوں سے جو فرصت ملتی
پھر ترے ہجر کی روداد پرانی لکھتا

لمحہ بھر کو ترا آنچل جو میسر ہوتا
میرے اشکوں کی ہے کیا وجہِ روانی، لکھتا

وہ جو سجاد ترقی کی نظر ہوتی گئی
کیا رہِ وصل کی اک اک مَیں نشانی لکھتا
 
سر الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

گر اجازت تری ہوتی میں کہانی لکھتا
تیرا بچپن تری معصوم جوانی لکھتا

ڈھانپ کر اپنی وفاؤں کی ردا سے تجھ کو
ہجر کی رت میں کوئی شام سہانی لکھتا

کچھ مری سنتا کچھ اپنی بھی سناتا مجھ کو
قصئہِ درد مَیں پھر تیری زبانی لکھتا

ہائے بارود کی بدبو سے پرندوں کے لئے
کیسے گلشن سے ہوئی نقل مکانی لکھتا

دورِ حاضر کے تھپیڑوں سے جو فرصت ملتی
پھر ترے ہجر کی روداد پرانی لکھتا

لمحہ بھر کو ترا آنچل جو میسر ہوتا
میرے اشکوں کی ہے کیا وجہِ روانی، لکھتا

وہ جو سجاد ترقی کی نظر ہوتی گئی
کیا رہِ وصل کی اک اک مَیں نشانی لکھتا
سر@الف عین
 
ایسے کہ اس مصرعے میں سنتا جو قصۂ غم تیری زبانی یہ ایک بات ہے پھر سننے کے بعد لکھنا یہ دوسری بات لیکن آپ کے مصرعے میں ایسی صورت نہیں ہے
سننا اور لکھنا یہ دو مختلف چیزیں ہیں اور کسی کی زبانی سنا تو جا سکتا ہے لیکن لکھا نہیں جا سکتا
 
ایسے کہ اس مصرعے میں سنتا جو قصۂ غم تیری زبانی یہ ایک بات ہے پھر سننے کے بعد لکھنا یہ دوسری بات لیکن آپ کے مصرعے میں ایسی صورت نہیں ہے
سننا اور لکھنا یہ دو مختلف چیزیں ہیں اور کسی کی زبانی سنا تو جا سکتا ہے لیکن لکھا نہیں جا سکتا
میں نے اسی بات کو واضح کرنے کے لئے قومہ دیا ہے مصرعہ یوں ہے
سنتا جو قصئہِ غم تیری زبانی،( لکھتا)
 
اوہ معافی چاہتا ہوں میں نے سوچا آپ نے یہ شعر کسی دوسرے شاعر کا لکھا ہے بطور سند لیکن یہ آپ نے اپنے شعر کی اصلاح کر کے لکھا تھا
اب ٹھیک ہو گیا ہے پہلے غلط تھا
 
ہائے بارود کی بدبو سے پرندوں کے لئے
کیسے گلشن سے ہوئی نقل مکانی لکھتا
اس شعر میں بھی ایک فالٹ ہے یا تو لکھتا سے پہلے قومہ لگا دو یا پھر کسی دوسری طرح سے اس شعر کو کہو کیونکہ
پرندوں کے لیے نقل مکانی کچھ فٹ نہیں لگ رہا پرندوں کی نقل مکانی
لا سکو تو بہتر ہے
 
سر الف عین
یاسر شاہ
سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

گر اجازت تری ہوتی میں کہانی لکھتا
تیرا بچپن تری معصوم جوانی لکھتا

ڈھانپ کر اپنی وفاؤں کی ردا سے تجھ کو
ہجر کی رت میں کوئی شام سہانی لکھتا

کچھ مری سنتا کچھ اپنی بھی سناتا مجھ کو
قصئہِ درد مَیں پھر تیری زبانی لکھتا

ہائے بارود کی بدبو سے پرندوں کے لئے
کیسے گلشن سے ہوئی نقل مکانی لکھتا

دورِ حاضر کے تھپیڑوں سے جو فرصت ملتی
پھر ترے ہجر کی روداد پرانی لکھتا

لمحہ بھر کو ترا آنچل جو میسر ہوتا
میرے اشکوں کی ہے کیا وجہِ روانی، لکھتا

وہ جو سجاد ترقی کی نظر ہوتی گئی
کیا رہِ وصل کی اک اک مَیں نشانی لکھتا
سر الف عین
 
Top