ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے ۔ ثاقب لکھنوی

فاتح

لائبریرین
مدتوں سے اس غزل کی تلاش میں تھا کہ یہ مشہورِ زمانہ شعر "باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے" کس غزل میں ہے۔ خدا خدا کر کے آج یہ غزل ہاتھ لگی تو اسے محفل پر بھی ارسال کرنے کا سوچا۔

ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے

جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

آئینہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)
 

محمداحمد

لائبریرین
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

ثاقب لکھنوی کا یہ شعر تو مجھے بہت ہی پسند ہے۔

واہ بھائی واہ ! دل خوش ہو گیا۔

مولا خوش رکھے آپ کو۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

ثاقب لکھنوی کا یہ شعر تو مجھے بہت ہی پسند ہے۔

واہ بھائی واہ ! دل خوش ہو گیا۔

مولا خوش رکھے آپ کو۔۔۔
محمد احمد صاحب! غزل پسند کرنے اور اس قدر مخلصانہ دعائیں دینے پر آپ کا شکریہ۔
 

فاتح

لائبریرین
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلےتھے پھر ہوا دینے لگے

ہائے ہائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شکریہ!

واہ کیا خوبصورت غزل ہے، بہت شکریہ فاتح صاحب شیئر کرنے کیلیے۔
شکریہ جناب۔

واہ واہ حضرت یہ تو کمال کا درّنایاب آپ کے ہاتھ لگا۔ شکریہ شریکِ دوستاں کرنے کے لئے۔ :)
جی جناب مدتوں سے اس خوبصورت غزل کی تلاش میں تھا اور اتفاق سے آج ہی ہاتھ لگی تھی۔ بہت شکریہ!

بہت عمدہ انتخاب ہے جناب فاتح صاحب ۔ شکریہ ۔
بہت شکریہ شاہ صاحب!
 
Top