ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے ۔ ثاقب لکھنوی

فرخ منظور

لائبریرین
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے

جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

آئینہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزا ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)
 
Top