ہجر کی عمر بڑی ہے.... ثمینہ راجہ

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ہجر کی عمر بڑی ہے تو ہم ان آنکھوں کو
اب کسی خواب نگر میں نہیں جانے دیں گے
غم سے اب دوستی کر لیں گے
خوشی کو نہیں آنے دیں گے

ہجر کے وقت میں احوال شب و روز کا کیا پوچھتے ہو
اس میں ساعت بھی زمانوں سے بڑی ہوتی ہے
دن کھڑا ہوتا ہے جلاد کی مانند سبھی راتوں پر
رات ڈائن کی طرح
وقت کے ناکے میں اڑی ہوتی ہے
ہجر کے ساتھ میں وہ قہر ہے
جینا بھی گراں اور نہ جینا مشکل
ہجر کے ہاتھ میں وہ زہر ہے
پینا بھی مشکل اور نہ پینا مشکل

ہجر درویش نہیں
ہجر کم اندیش نہیں
ہجر نہیں پیر مغاں
ہجر عیار ہے
دنیا کا طلبگار ہے
اب تک ہے جواں

ہجر کی عمر بڑی ہے تو چلو ہم خود ہی
نقش سب دل سے مٹا دیتے ہیں
ہاتھ جینے سے اٹھا لیتے ہیں

 
آخری تدوین:
Top