ہدیہء اشک ملے ، درد کی سوغات ملے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہدیہء اشک ملے ، درد کی سوغات ملے
کاسہء عشق ہے خالی کوئی خیرات ملے

بھردےکشکول ِسماعت کوہمیشہ کیلئے
لبِ لعلیں سے ترے ایسی کوئی بات ملے

کھیل چلتا ہی رہے گرچہ لپٹ جائے بساط
مات ہونی ہے تو پھر ایسی کوئی مات ملے

خاک اُڑانے کو ملی وسعتِ آشوبِ دہر
غم اٹھانے کو ترے شہر میں دن رات ملے

اور کیا چاہئے دہلیزِ محبت سے تری
گلشنِ عمر ملا ، پھول سے لمحات ملے

شکریہ کرتی رہے گی یہ نظر جھک جھک کر
کبھی مجھ سے جو تری چشمِ عنایات ملے

ہمکلام آپ ہوئے بھی تو غزل کی صورت
ہمیں اظہار کے پردے میں حجابات ملے

ہم سمجھتے تھے اُن آنکھوں میں ہر اُلجھن کا جواب
پڑھنا آیا تو ہزاروں ہی سوالات ملے

نہ شکایت ، نہ محبت ، نہ تغافل کی نظر
بزمِ یاراں میں بھی روٹھے ہوئے جذبات ملے

خوف کچھ اپنی جسارت کا تھا ، کچھ اُن کا ادب
جب کبھی اُن سے ملے ہم بڑے محتاط ملے

کام سے آتے ہیں ملنے تو ہزاروں ہی ظہیر
دل یہ کرتا ہے کوئی بہرِ ملاقات ملے

ظہیر احمد ۔۔۔۔ ۔ 2004​
 
بہت عمدہ۔ کیا کہنے ظہیر بھائی۔
ہمکلام آپ ہوئے بھی تو غزل کی صورت
ہمیں اظہار کے پردے میں حجابات ملے

ہم سمجھتے تھے اُن آنکھوں میں ہر اُلجھن کا جواب
پڑھنا آیا تو ہزاروں ہی سوالات ملے

نہ شکایت ، نہ محبت ، نہ تغافل کی نظر
بزمِ یاراں میں بھی روٹھے ہوئے جذبات ملے

کام سے آتے ہیں ملنے تو ہزاروں ہی ظہیر
دل یہ کرتا ہے کوئی بہرِ ملاقات ملے
 
Top