حسان خان
لائبریرین
ہرات کے شمال مغربی حصے میں کچھ اینٹوں کے مینار اپنی بلندی کی وجہ سے دیکھنے والوں کی نگاہیں اپنی جانب جلب کرتے ہیں۔
یہ عمارت، نویں صدی ہجری کے مشہور ترین فارسی ادیب نورالدین عبدالرحمن ملقب بہ جامی و فرزندِ نظام الدین احمدکی آرامگاہ ہے۔
زندگی نامۂ جامی:
جامی ۸۱۷ ہجری میں ہرات کے نزدیک واقع خراسانی گاؤں 'خرگرد جام' میں پیدا ہوئے تھے۔
جامی نے سلطان حسین بایقرا کے عہدِ سلطنت میں تیرہ سال کی عمر میں ہرات کو زندگی کے لیے منتخب کیا اور بعد میں مکہ، بغداد اور تبریز کی جناب سفروں کا آغاز کیا۔
انہوں نے نوجوانی میں علومِ دینی کی تحصیل ہرات میں اور سمرقند کے اپنے چھوٹے سفر کے دوران کی اور جب انہوں نے شعر کہنا شروع کیا تو لقبِ جامی کو اپنی زادگاہ کی یاد میں اختیار کیا۔
عبدالرحمن جامی شعر و عرفان کے علاوہ علومِ منطق، فلسفہ، حکمتِ اشراق، ریاضی اور طب سے بھی واقف تھے اور علمِ عرفان و تصوف میں مطالعے اور تحقیق کے بعد اُس زمانے کے بزرگانِ متصوف کے ہم نشین ہو گئے۔
جامی اپنی پوری زندگی میں ہرات کے حکام اور معاصر بزرگوں کے احترام کے مورد رہے۔ سلطان حسین بایقرا اور امیر علی شیر نوائی اُن اشخاص میں شامل ہیں جو جامی کی علمی شخصیت کے ادراک کی وجہ سے اُن کا احترام کیا کرتے تھے۔
باوجود اِس کے کہ جامی نظامی گنجوی کے شعری اسلوب کی پیروی کیا کرتے تھے، اُن کے نزدیک سعدی اور حافظ کے اشعار خاص احترام کے لائق تھے۔
عبدالرحمن جامی نے فارسی اور عربی کے ابتدائی علوم اپنے والد اور ہرات کے مدرسۂ نظامیہ کے اساتذہ کی نگرانی میں حاصل کیے۔ اور عالی علوم کے مراحل محمد جاجرمی اور خواجہ علی سمرقندی جیسے استادوں کے حضور طے کیے۔
ہرات کے دینی علماء میں سے ایک غلام سخی مصباح جامی کی شخصیت کی خصوصیات کے بارے میں کہتے ہیں: جامی ایک ایسی علمی، ادبی اور عرفانی شخصیت ہیں جو جہانِ اسلام میں شعراء اور عرفاء کے افتخار کا موجب ہیں۔
اُن کے مطابق اگرچہ مسلمان اپنی تاریخی سرگذشتوں، اور اپنے ادبی اور عرفانی افتخارات کو زیادہ تر صرف نعرے بازی اور رسمی تعریف کے لیے استعمال کرتے ہیں اور شاذ و نادر ہی اُن کے عملی پہلوؤں کی جانب منطقی روش سے رجوع کرتے ہیں، اس کے باوجود جامی اپنی علمی، عرفانی اور ادبی جامعیت کی وجہ سے خاص و عام کے اذہان میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
آثارِ جامی:
اہلِ شعر و عرفاں کی دسترس میں موجود اُن کی اہم ترین تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
دیوانِ اشعار، ہفت اورنگ، نفحات الانس، بہارستان، لوائح، اشعہ اللمعات، تاریخِ صوفیان، نقد النصوص فی شرح نقش الفصوص ابنِ عربی، مناسکِ حج منظوم، مناقبِ جلال الدین رومی، منشأت اور نَے نامہ۔۔
مورخوں کے مطابق مخطوطوں کی شکل میں موجود جامی کے رسالوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔
ہرات کے ثقافتی ماہر محمد صدیق میر کہتے ہیں: مولانا عبدالرحمن جامی فارسی زبان کے ایک ممتاز شاعر ہیں جن کے ادبیات، شعر، تصوف اور فلسفے سے متعلق بہت سارے آثار باقی رہ گئے ہیں۔
مذکورہ افغان ماہر، جامی کو انوری، سعدی، حافظ، خیام، فردوسی اور رومی کی صف میں سمجھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ شعر و شاعری میں جو جامی کی روش تھی وہ دوبارہ دہرائی نہیں گئی اور اس لحاظ سے جامی کو فارسی ادب کے آخری صوفی شعراء میں شامل کہا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا: "تیموری دربار کے وزیرِ اعظم امیر علی شیر نوائی سے جامی قریبی تعلقات رکھتے تھے اور امیر مختلف مجالس میں اُن سے کسبِ علوم کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اُنہوں نے جامی کو خاتم الشعراء کا بھی لقب دے دیا۔"
ہرات کا میدانِ جامی
اُنہوں نے اضافہ کیا: ہرات کے لوگ خصوصاً اہلِ عرفان و تصوف جامی سے خاص ارادت رکھتے ہیں اور اُن کی تعلیموں اور تحریروں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔
نورالدین عبدالرحمن جامی ۸۱ سال کی عمر میں ہرات میں وفات پا گئے اور تیموری دور کے وزیرِ اعظم امیر علی شیر نوائی نے شہر کے شمال مغربی حصے میں ایک زمینی قطعے کو اُن کے مکانِ دفن کے طور پر منتخب کیا۔
پانچ صدیاں گزر جانے کے باوجود اُن کی آرامگاہ ہنوز تمام افغانوں اور علم و ادب اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والوں کے احترام کی مورد ہے۔
جامی کی آرامگاہ کی لوح
ہرات کے بلدیہ حکام نے حال ہی میں ایک میدان اور ہرات کے مرکز میں واقع ایک شاہراہ کو اِن بزرگ شاعر اور ادیب کے نام سے منسوب کیا ہے۔
ہرات میں سو سے زیادہ علماء، شعراء اور عرفاء کی آرامگاہیں موجود ہونے کی وجہ سے افغان اس شہر کو 'خاکِ اولیاءاللہ' کہتے ہیں۔
متن اور تصاویر کا منبع
(ترجمہ میرا اپنا ہے۔)
تلمیذ محمود احمد غزنوی نایاب زبیر مرزا
یہ عمارت، نویں صدی ہجری کے مشہور ترین فارسی ادیب نورالدین عبدالرحمن ملقب بہ جامی و فرزندِ نظام الدین احمدکی آرامگاہ ہے۔
زندگی نامۂ جامی:
جامی ۸۱۷ ہجری میں ہرات کے نزدیک واقع خراسانی گاؤں 'خرگرد جام' میں پیدا ہوئے تھے۔
جامی نے سلطان حسین بایقرا کے عہدِ سلطنت میں تیرہ سال کی عمر میں ہرات کو زندگی کے لیے منتخب کیا اور بعد میں مکہ، بغداد اور تبریز کی جناب سفروں کا آغاز کیا۔
انہوں نے نوجوانی میں علومِ دینی کی تحصیل ہرات میں اور سمرقند کے اپنے چھوٹے سفر کے دوران کی اور جب انہوں نے شعر کہنا شروع کیا تو لقبِ جامی کو اپنی زادگاہ کی یاد میں اختیار کیا۔
عبدالرحمن جامی شعر و عرفان کے علاوہ علومِ منطق، فلسفہ، حکمتِ اشراق، ریاضی اور طب سے بھی واقف تھے اور علمِ عرفان و تصوف میں مطالعے اور تحقیق کے بعد اُس زمانے کے بزرگانِ متصوف کے ہم نشین ہو گئے۔
جامی اپنی پوری زندگی میں ہرات کے حکام اور معاصر بزرگوں کے احترام کے مورد رہے۔ سلطان حسین بایقرا اور امیر علی شیر نوائی اُن اشخاص میں شامل ہیں جو جامی کی علمی شخصیت کے ادراک کی وجہ سے اُن کا احترام کیا کرتے تھے۔
باوجود اِس کے کہ جامی نظامی گنجوی کے شعری اسلوب کی پیروی کیا کرتے تھے، اُن کے نزدیک سعدی اور حافظ کے اشعار خاص احترام کے لائق تھے۔
عبدالرحمن جامی نے فارسی اور عربی کے ابتدائی علوم اپنے والد اور ہرات کے مدرسۂ نظامیہ کے اساتذہ کی نگرانی میں حاصل کیے۔ اور عالی علوم کے مراحل محمد جاجرمی اور خواجہ علی سمرقندی جیسے استادوں کے حضور طے کیے۔
ہرات کے دینی علماء میں سے ایک غلام سخی مصباح جامی کی شخصیت کی خصوصیات کے بارے میں کہتے ہیں: جامی ایک ایسی علمی، ادبی اور عرفانی شخصیت ہیں جو جہانِ اسلام میں شعراء اور عرفاء کے افتخار کا موجب ہیں۔
اُن کے مطابق اگرچہ مسلمان اپنی تاریخی سرگذشتوں، اور اپنے ادبی اور عرفانی افتخارات کو زیادہ تر صرف نعرے بازی اور رسمی تعریف کے لیے استعمال کرتے ہیں اور شاذ و نادر ہی اُن کے عملی پہلوؤں کی جانب منطقی روش سے رجوع کرتے ہیں، اس کے باوجود جامی اپنی علمی، عرفانی اور ادبی جامعیت کی وجہ سے خاص و عام کے اذہان میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
آثارِ جامی:
اہلِ شعر و عرفاں کی دسترس میں موجود اُن کی اہم ترین تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:
دیوانِ اشعار، ہفت اورنگ، نفحات الانس، بہارستان، لوائح، اشعہ اللمعات، تاریخِ صوفیان، نقد النصوص فی شرح نقش الفصوص ابنِ عربی، مناسکِ حج منظوم، مناقبِ جلال الدین رومی، منشأت اور نَے نامہ۔۔
مورخوں کے مطابق مخطوطوں کی شکل میں موجود جامی کے رسالوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔
ہرات کے ثقافتی ماہر محمد صدیق میر کہتے ہیں: مولانا عبدالرحمن جامی فارسی زبان کے ایک ممتاز شاعر ہیں جن کے ادبیات، شعر، تصوف اور فلسفے سے متعلق بہت سارے آثار باقی رہ گئے ہیں۔
مذکورہ افغان ماہر، جامی کو انوری، سعدی، حافظ، خیام، فردوسی اور رومی کی صف میں سمجھتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ شعر و شاعری میں جو جامی کی روش تھی وہ دوبارہ دہرائی نہیں گئی اور اس لحاظ سے جامی کو فارسی ادب کے آخری صوفی شعراء میں شامل کہا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا: "تیموری دربار کے وزیرِ اعظم امیر علی شیر نوائی سے جامی قریبی تعلقات رکھتے تھے اور امیر مختلف مجالس میں اُن سے کسبِ علوم کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اُنہوں نے جامی کو خاتم الشعراء کا بھی لقب دے دیا۔"
ہرات کا میدانِ جامی
اُنہوں نے اضافہ کیا: ہرات کے لوگ خصوصاً اہلِ عرفان و تصوف جامی سے خاص ارادت رکھتے ہیں اور اُن کی تعلیموں اور تحریروں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔
نورالدین عبدالرحمن جامی ۸۱ سال کی عمر میں ہرات میں وفات پا گئے اور تیموری دور کے وزیرِ اعظم امیر علی شیر نوائی نے شہر کے شمال مغربی حصے میں ایک زمینی قطعے کو اُن کے مکانِ دفن کے طور پر منتخب کیا۔
پانچ صدیاں گزر جانے کے باوجود اُن کی آرامگاہ ہنوز تمام افغانوں اور علم و ادب اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والوں کے احترام کی مورد ہے۔
جامی کی آرامگاہ کی لوح
ہرات کے بلدیہ حکام نے حال ہی میں ایک میدان اور ہرات کے مرکز میں واقع ایک شاہراہ کو اِن بزرگ شاعر اور ادیب کے نام سے منسوب کیا ہے۔
ہرات میں سو سے زیادہ علماء، شعراء اور عرفاء کی آرامگاہیں موجود ہونے کی وجہ سے افغان اس شہر کو 'خاکِ اولیاءاللہ' کہتے ہیں۔
متن اور تصاویر کا منبع
(ترجمہ میرا اپنا ہے۔)
تلمیذ محمود احمد غزنوی نایاب زبیر مرزا
آخری تدوین: