چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
ہمارے آباو اجدا د میں نہ تو کوئی شاعر گزرا ہے نہ ہی کوئی ادیب ۔ اردو محفل پر آنے سے پہلے کبھی کسی کا خاکہ بھی نہیں لکھا تھا ۔ بھلا ہوبہن المقدس کا جس کا خاکہ پڑھ کے مجھے بھی شوق ہوا کہ میں بھی لکھ ڈالوں ۔ نگاہ انتخاب جناب الف چاچو پر پڑی ۔ اصل میں ارادہ تھا کہ ہر محفلین پر ایک عدد خاکہ لکھتا جاؤں گا ۔مگر میں نے سوچا یہ نہ ہو کہ ان کا نمبر آتے آتے کہیں اوپر سے نوٹس نہ آ جائے ، اس لیے ابتدا انہی سے کرنی چاہیے ۔ الف چاچوپرلکھنا جتنا آسان تھا اتنا ہی مشکل بھی ۔ پہلا خاکہ تھا اس لیے معمہ بازی کے چکر میں کچھ زیادہ ہی پہیلی سی بن گئی ۔ اورمزاح کے چکر میں کچھ بے ربطی سی آ گئی ، جس کو محسوس کر کے مرزا جی نے تبصرہ کیا کہ یہ تو کسی ایک نہیں دو تین شخصیات کا خاکہ لگتا ہے ۔ ا س لیے اب سیدھا سادا سا لکھنے کا رادہ ہے تاکہ خود "موصوف " بھی مکر نہ سکیں کہ یہ میرا نہیں کسی اور کا خاکہ ہے۔
کنگ میکر
انٹر نیٹ پر پہلی بار یہ نام میں نے وکی پیڈیا پر دیکھا ۔ دیوانِ غالبؔ اردو ویب کے پیشِ لفظ میں ۔سوچا کہ ہوگا کوئی اللہ کا بندہ۔
پھر میرا آنا جانا اردو محفل پر شروع ہوا (یہ باقاعدہ ممبر بننے سے پہلے کی بات ہے )۔ اور وارث مرزا جی سے ملنے کے شوق میں فدوی باقاعدہ محفل کا ممبر ہو گیا ۔
اور یہاں میری ملاقات"ان" سے بھی ہو گئی ۔وہ جیسے کہتے ہیں نا کہ آگ لینے گئے اور نبوت مل گئی ۔میں نے سوچا ان کو بتایا تو کہیں موصوف اکڑ ہی نہ جائیں ، اس لیے چپ چپاتے ہی ان کے جھنڈے تلے آنے کی کوئی ترکیب سوچی جائے ۔ میں لائبریرین ہو گیا ۔ بعد میں جب عقل ٹھکانے آئی کہ میری تو ٹائپنگ جیسی خجل خواری سے سلام دعا بھی نہیں تو ہاتھ پیر پھول گئے ۔ یہ بھلا کہاں رعایت کرنے والے تھے ، اپنے کُنگ فو سے میری اچھی خاصی دھلائی کر دی ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر میں گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہو ا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت شیریں لبوں کے مالک ہیں۔دل کو تسلی دی کہ شیخ سعدی ؒ نے بھی تو گلستان کے باب پنجم میں لکھا ہے کہ "ضرب الحبیب زبیب" (محبوب کی ضرب کشمش ہے)۔ تو بھلا چھوٹا غالبؔ بڑے غالبؔ کے دیوان کے مرتب کنندہ کی لن ترانیوں کا کیسے برا منا سکتا تھا ۔
کمپیوٹر ہارڈ وئیر والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹائپنگ سے ہماری کیسے جان نکلتی ہے ۔ شاذ و نادر لوگ ہونگے جو ہارڈ وئیر کے جغادری ہوتے ہوئے ٹائپنگ کے میدان میں بھی ہاتھ پیر چلا سکتے ہوں ۔ لیکن مصیبتوں پہ مصیبت اردو ٹائپنگ ۔ کیسا لطیفہ سا ہے کہ "ض" لکھنے کیلئے "جے" دباؤ ، "ط" لکھنے کا دل کر رہا ہے تو "وی" کی منت کرو اور اگر کوئی بھلا مانس "ش" لکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے "ایکس" سے رجوع کرے ۔ لیکن بات صرف ٹائپنگ سیکھنے اور ٹکا ٹک انگلیاں چلانے کی نہیں ہو رہی ذرا اس غریب مسکین بے چارے کی بے بسی کا اندازہ لگائیں جو دیوانِ غالبؔ کالی داس پوسٹ کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے چکا ہو۔ ٹائپو گرافی کے ضمن میں چاچو کی ایک تحریر میرے لیے اکسیر ثابت ہوئی ، اور میں نہ صرف یہ کہ خوش اسلوبی سے دیوانِ غالبؔ ٹائپ کرنے میں کھرا اترا ، بلکہ میں نے نسخہ حمیدیہ ، اور دیوانِ غالبؔ اردو ویب کی کڑی پروف ریڈنگ کر کے ان میں بھی غلطیاں نکال کے رکھ دیں ۔
یہ یقیناً چاچو کی اس تحریر کا ہی اعجاز ہے کہ میں اب لاشعوری طور پر کوئی بھی تحریر پروف ریڈنگ والی نظر سے پڑھنے کا عادی ہو گیا ہوں ۔ اور یہ خود اعتمادی بھی چاچو ہی کی دین ہے کہ اب یہ گدھا بھی اپنے آپ کو چاچو کے بعد سب سے اچھا پروف ریڈر سمجھتا ہے ۔
جزاک اللہ چاچو
ہر شخص تیر ا نام لے، ہر شخص دیوانہ ترا
دیوانِ غالبؔ نسخہ حمیدیہ کے توسط سے جویریہ آپی سے واقف ہوا ۔ دیباچہ یا عرض مصنف عام طور پر کسی کتاب کا وہ حصہ ہوتا ہے ، جہاں مصنف یا مولف ظاہراً تو انکساری سے مگر واضح طور جتانے والے الفاظ میں اکثر اوقات اپنے آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنا ہی قصیدہ پڑھا کرتے ہیں ۔ اور آخری سطر میں چند دوستوں کا شکریہ ادا کر دیا جاتا ہے ۔ مگر "حرفے چند " نامی تحریر میں ایسا کچھ نہیں ۔ بے شک آپ خود پڑھ کے دیکھ لیں ۔ وہ تو شروع سے آخر تک کسی اعجاز عبید نامی شخص کا قصیدہ ہے ۔ بہترین مزاح نگار، بہترین شاعر، بہترین طنز نگار ، بہترین ماہر عروض ، بہترین ادیب ، بہترین برقی کتب ساز ، بہترین جھاڑ نے والے ، بہترین غلطیاں نکالنے والے، بہترین عزت افزائی اور دھلائی کرنے والے اور ایسا ہی بہت کچھ قرا ر دیا ہے ۔ اور اپنی اس کاوش کو انہی صاحب سے منسوب کیا ہے ۔ اور بے شک یہ خواہ مخواہ کی لفاظی یا مسکا بازی نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں جوجو بٹیا کا اپنے روحانی باپو سے پیار چھلکتا ہے ۔
مہ جبین آپی جی کہتی ہیں کہ جب میں نئی نئی اردو محفل کی ممبر بنی تو سب نے امین کی امی ہونے کی وجہ سے بہت اچھے طریقے سے خوش آمدید کہا ۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ گرمجوشی ماند پڑتی گئی ۔ اور کچھ لوگ (نام لکھنا مناسب نہیں ) مجھ سے بلا وجہ ہی کھنچے کھنچے سے رہنے لگے ۔ پھر آہستہ آہستہ گپ شپ کے دھاگوں میں بھی ایک غیر محسوس سی اجنبیت محسوس ہونے لگی ۔ تو میں نے ان دھاگوں میں آنا جانا ترک کر دیا اور صرف شاعر ی اور بیت بازی والے دھاگوں میں خود کش حملے شروع کر دئیے ۔ پسندیدہ کلام کے علاقے میں نانا حزیں صدیقی کی کلاشنکوف سے ہوائی فائرنگ کرتی رہتی ، یا پھر حدائق بخشش سے منتخب نعتیں سناتی رہتی ۔ پھر قریب تھا کہ میں اکتا کر محفل چھوڑ دینے کے فیصلے پر عمل کرتی کہ اعجاز انکل نے مجھے ای بک کیلئے اکسایا ۔ اور پھر میں نئے جوش و خروش سے اس کام میں لگ گئی ۔ اور ابھی تک محفل پر موجود ہوں ۔ اس ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کا کریڈٹ سارا کا سارا اعجاز انکل کو جاتا ہے۔ وہ یہ ہیں ۔ وہ وہ ہیں ۔وہ ایسے ہیں ۔ وہ ویسے ہیں ۔ بلا بلا بلا بلا ۔۔۔
وہ تو اور بھی بہت کچھ ان کی شان میں کہہ رہی تھیں مگر میرا تو مارے جیلسی کے برا حال ہو گیا ۔ آخر یہ بابا ہے کون جس کو دیکھو وہی ان کے قصیدے پڑھتا نظر آتا ہے ۔پہلے جویریہ آپی ۔ اب مہ جبین آپی بھی اعجاز انکل اعجاز انکل۔حد ہوتی ہے یار ۔ یہ سوچ کر میں اس بابے کی تلاش میں لگ گیا ۔
محفل پر ایک چشمش سا لڑکا آپ نے دیکھا ہوگا ۔ محمد بلال اعظم نام ہے اور دعویٰ ہے کہ اردو محفل کا سب سے کم عمر (فعال) رکن ہوں ۔ میں خوش ہو گیا کہ چلو یار بچے ہمیشہ بزرگوں سے شاکی ہوتے ہیں ۔ کچھ جنریشن گیپ ، اور کچھ بزرگوں کی (۔۔۔۔۔۔۔)وجہ سے ۔ میں نے سوچا کہ یہ پکی بات ہے کم از کم یہ تو ان اعجاز عبید صاحب کا دیوانہ نہیں ہوگا ۔ دیکھئے کسی کی عزت کرنا اور بات ہے ، ہم جیسے اچھے بچے تو بزرگوں کی ویسے بھی بہت عزت کرتے ہیں ۔ مگر وہ سب مارے باندھے ہوتا ہے ۔ لیکن کسی کا دیوانہ ہونا ایک اور قسم کی تخریب کاری ہے ، اور اس میں زبردستی کا کوئی شائبہ نہیں ۔
یہی سوچ کر میں نے بلال سے پوچھا کہ تمہارا پسندیدہ محفلین کون ہے ۔ میرا خیال تھا کہ اکثر جو میری تعریفوں کے پل باندھتا رہتا ہے ، تو میرا ہی نام لے گا ۔ چاہے دل سے نہ سہی کم از کم میرے منہ پہ تو میرا ہی نام لے گا ۔ مگر اس ستم ظریف نے بھی انتہا کر دی ۔ بولا :۔ دوسرے نمبر پر تم میرے پسندیدہ محفلین ہو۔ میں نے اندر کی جلن کو دباتے ہوئے اور ایک نمائشی انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا :۔ چھوڑو بھی یار ، میں بھلا کس کھیت کی مولی ہوں۔ یہ تو تمہا را حسنِ ظن ہے وغیرہ وغیرہ مگر یہ تو بتا دو کہ پہلا نمبر کس پھنے خان صاحب کا ہے ۔؟ اور اس کا جواب تھا :۔ اعجاز عبید اختر صاحب۔
حد ہوتی ہے یار ۔۔۔۔ لوگوں کو ہو کیا گیا ہے آخر
میری جیلسی سہ چند ہو چکی تھی
جلن کے مارے میں نے لوگوں سے پوچھنا بھی ترک کر دیا ۔ چھوڑو یار ، وہی ایک ہی نام ہے جو سب کی زباں پر ہے ۔ لیکن آسمان کے ترکش میں ایک تیر ابھی باقی تھا ۔ جو اس نے موقع مناسب دیکھ کر چلا بھی دیا ۔ میرا دوست" نون "ایک دن پتا نہیں کس موڈ میں تھا ۔ اچانک بولا یار سر اعجاز صاحب کی کیا ہی بات ہے ۔ میچ لیس پرسنالٹی وغیرہ وغیرہ ۔
اب آپ ہی بتائیں بندہ کدھر جائے ؟ لوگ تو پوچھے بغیر ہی شروع ہو جاتے ہیں ۔
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالبؔ
قبلہ استاد محترم یقیناً سچے تھے ۔ ہم کو یقین آیا ، ہم کو اعتبار آیا
لک ٹوئنٹی سکس مُنڈے دا
اس سے پہلے کہ یہ عنوان کچھ غلط فہمیوں کا بانی ہو۔ میں اس پنجابی جملے کا ترجمہ کرتا چلوں ۔"لڑکے کی ویسٹ(نازک کمریا)کا ناپ چھبیس (26) ہے"
جنہوں نے "لک ٹوئنٹی ایٹ کُڑی دا "گانا سنا ہوا ہے وہ سمجھ رہے ہونگے کہ شاید موصوف کا ویٹ (وزن) بھی فورٹی سیون(47 کلو گرام) ہوگا ۔ لیکن میں یہ غلط فہمی بھی دور کرتا چلوں ۔ حالانکہ گانے کے بولوں کے مطابق 28:47 کا فارمولہ بنتا ہے (اٹھائیس نسبت سینتالیس ) مگر اس کیس میں شاید تناسب معکوس والا کلیہ اپلائی ہوا ہے ، کہ کمر کا ناپ گھٹتا جاتا ہے اور وزن بڑھتا جاتا ہے ۔ ان کا فارمولا علم ریاضی کی زبان میں 26:52 ہے ۔ یعنی کہ ہمارے یہ موصوف ایک من بارہ کلو گرام وزنی ہیں ۔
لڑکیوں کیلئے لمحہ فکریہ اور ندیدی ،پیٹو لڑاکیوں کیلئے ڈائٹنگ کا کڑوا کسیلا مگر بالکل مفت مشورہ کیونکہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ۔
غالبؔ کے زمانے میں محبوبات کی کمر عنقا تھی ۔ پھر اکبر الہٰ آبادی کے زمانے میں سنا ہے عنقا سے عالم ِ موجودات میں تو وجود میں آ گئی تھی مگر پھر بھی اتنی پتلی ہوتی تھی کہ انہیں خفیہ ایجنٹوں کو کمر کی تلاش کا کام سونپنا پڑا۔ پھر عہد بہ عہد یہ بال برابر ، پھر ہلال برابر ہوتی آئی اور اب سٹینڈرڈ 28 مقرر ہوا ہے ۔ لیکن ان سب شاعروں کیلئے شیم شیم شیم جنہوں نے خواہ مخواہ اپنی محبوباؤں کی موٹی کمروں کو پتلا کہہ کہہ کر اتنی پبلسٹی کی ۔ اگر کوئی ہمارے اس محبوب (ارے بھئی 26 والا) کی کمر یا کا جلوہ دیکھ لیتا تو شاید نیو یارک اور لندن صدقے میں دے دیتا (ثمر قند اور بخارا تو حافظ شیرازی پہلے ہی دان کر چکے ہیں )
ایک نامعلوم شاعر ہمارے ان محبوب کیلئے کہہ گئے ہیں
صنم !!!سنتے ہیں ، تیری بھی کمر ہے
کہاں ہے ، کس طرف کو ، کدھر ہے ؟
آخر عروض دان ہیں ، اپنی کمر کو بھی آج تک بحر سے خارج نہیں ہونے دیا ۔ البتہ فرماتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے صاحبِ توند ہو گیا ہوں ۔ خیر اتنی چھوٹی سی توند تو فیشن میں ہے ، غالبؔ جیسے شاعر کے دیوان میں بھی تو اس قسم کے شاذ مل ہی جاتے ہیں ۔ مجھے تو عروض کی الف بے کی سمجھ بھی نہیں ہے اس لیے پیر بھائی جناب محمد وارث مرزا سے گزارش ہے کہ اس پتلی کمریا کا عروضی تجزیہ کیا جائے ۔ ہم بھی تو جانیں یہ نازک کمریا کس بحر میں ہے ۔
آخر تو کیا ہے ؟ اے "نہیں ہے!"
بزرگوں (یہاں بزرگ سے مراد اللہ والے نہیں بوڑھے ہے)کا انتخابی نشان کھانسی اور ان کی سب سے بڑی نشانی ماضی کو یاد کرنا ہے ۔ اگر کوئی کالے بالوں والا ماضی کو یاد کر رہا ہو تو سمجھ لیں کہ بڈھا وگ لگا کر جوان نظر آنے کا ناٹک کر رہا ہے ۔ بزرگوں کی ہر بات کی تان ماضی پر ہی ٹوٹتی ہے ۔ لیکن اسے آپ کیا کہیں گے جو سٹھیانے کی حد پار کر کے بھی ان دونوں یونیورسل نشانیوں سے مبرا ہو ۔ بڈھے بابے میں نے بھی دیکھے ہیں آپ نے بھی دیکھے ہیں ۔ بڑھاپا آتے ہی کھانسی اور جوڑوں کا درد مہمان ہو جاتے ہیں ۔ اور پھر وہ چارپائی سے ہلنا یا ادھر ادھر جانا عذاب سمجھتے ہیں ۔ لیکن یہ حضرت بھی کوئی دیومالائی کردار نہیں ہمارے سامنے کی دیکھی بھالی حقیقت ہیں ۔ کوئی بندہ ثابت کر دے کہ اس نے الف چاچو کو کھانستے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔یہ کھلا چیلنج ہے ۔
صرف بوڑھوں کا ہی کیا ذکر ، "ننگِ پیری ہے جوانی میری " کی کئی زندہ تصویروں کو بھی میں جانتا ہوں ۔ اگر میں کبھی خدانخواستہ شاعر ی کرنے لگا تو ایک غزل کا مصرعہ ان کیلئے "رشکِ جوانی ہے پیری تیری" ضرور ایڈجسٹ کروں گا ۔اس عمر میں یہ فعالیت ، کہ برقی کتب خانہ بھی چلا رہے ہیں ، اصلاح ِ سخن کے علاقے میں بھی انہی کا سکہ چلتا ہے ۔ وہاں یہ نوآموزوں کا شین قاف درست کرتے رہتے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کوئی دھاگہ ان کی ریٹنگ یا تبصرے سے محروم نہ رہ جائے ۔ چشمِ بد دور ۔
جیمز بانڈ کی فلمیں دیکھ دیکھ کر میرے اندر بھی جاسوسی انگڑائیاں لینے لگی تھی ۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اچھا جاسوس وہی ہوتا ہے جو ہر معاملے کو شک کی نگاہ سے دیکھے ۔ میں نے ایک مفروضہ قائم کیا کہ یہ کوئی نوجوان لڑکا ہے ، جو اپنے دادا جی کی تصویر اوتار لگا کر عزت بٹورتا ہے ۔ شکوک علیہ کی عمر بھی کوئی باسٹھ تریسٹھ نہیں ، زیادہ سے زیادہ اس کی عمر اکیس یا بائیس سال ہو گی ۔ قہر خدا کا بھلا تریسٹھ سال کا ہو کر بھی کوئی بابا اتنا فعال ہو سکتا ہے کہ اردو محفل کا ہیوی ویٹ چیمپئن ہو ۔ مگر جاسوسی میں نووارد کو اس معاملے میں منہ کی کھانی پڑی ۔ بے شک اللہ کے بہت سے شاہکار ہمارے سامنے ہوتے ہیں ، مگر ہم ان کا شعور نہیں رکھتے۔
بہت دلچسپ شخصیت ہیں ، مگر یہ دلچسپیاں بندے کو خود ڈھونڈنی پڑتی ہیں ، ان سے کھلنے کی امید عبث ہے ۔ اس قدر پرائیوٹ ہیں کہ اپنا حال چال بتانا بھی پسند نہیں کرتے ۔ اگر آپ کا کوئی کام یا بات انہیں پسند آ جائے تو اس کی نشانی یہ ہوگی کہ یہ آپ کا شکریہ ادا نہیں کریں گے ۔ لیکن اگر کبھی خدانخواستہ یہ آپ کو دیکھتے ہی شکریہ ادا کرنا شروع ہو جائیں تو فورا ً صدقہ دیجئے ۔ کیونکہ یہ ان کے طنز کی اور نارضگی کی نشانی ہے ۔ان کی ایک اور زبردست اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کبھی بھی اپنی شفقت اور محبت جتاتے نہیں ہیں ۔ مگر پھر بھی مخاطب کو محسوس ہو جاتاہے ۔ ان کی ایک چالاکی کہہ لیں یا دلچسپ حقیقت سمجھ لیں یہ کہ محفل پر ہر محفلین کو لگتا ہے کہ چاچو کا سب سے عزیز بھتیجا یا بھتیجی وہی ہے ۔ اس سب سے زیادہ دلچسپ تو ان کا تخلص ہے ۔بس ایک لفظ "سلمہ" کی کمی ہے پھر ان کا پورا نام پڑھتے ہی ایسے لگے گا جیسے کسی شادی کارڈ پہ دلہن کا نام پڑھ رہے ہوں ۔ دختر نیک(اعجاز عبید) اختر سلمہ۔۔۔۔۔
ایک تھریڈ پر کسی نے چاچو کو لائف ا چیومنٹ ایوارڈ دینے کی تجویز دی ۔ لیکن چاچو نے لاکھوں کی ایک بات کی :۔ محفل کے سبھی ممبرز مجھے اتنا چاہتے ہیں ، اور میری عزت کرتے ہیں ، میرے لیے یہی ایوارڈ ہے ، کہ میرے شاگرد مجھ سے اتنا پیار اور محبت کرتے ہیں ۔ اس بات پر میں ان سے متفق ہوں کہ واقعی ان کی شخصیت کسی بھی ایوارڈ سے بہت بلند ہے ۔
اوہ ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ہو گیا ستیاناس ۔۔۔۔ اوہ میرے خدا ۔۔۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔۔ کدھر چلاجاؤں ۔۔۔۔۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا
یہ چھوٹا غالب بھی الف چاچو کا دیوانہ نکلا