ہرہمسری سے شرک سے بالا ہے تیری ذات

سر الف عین
یاسر شاہ
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے میں نے حمد باری تعالٰی لکھنے کی کوشش کی ہے

کچھ اس طرح جہان میں یکتا ہے تیری ذات
ہرہمسری سے شرک سے بالا ہے تیری ذات

بس تیری رحمتوں سے مزین ہے کائنات
ہر شے گدا ہے تیری کہ داتا ہے تیری ذات

قائم ہے تُو ازل سے ابد تک جہان میں
لیکن زماں مکاں سے مبرّا ہے تیری ذات

مشکل کشا بھی تُوہے کہ حاجت روا بھی تُو
مانگے بنا جو دے وہ مسیحا ہے تیری ذات

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی پہ ہو
سب کے لئے کرم کا ذریعہ ہے تیری ذات

جن کے لئے جہاں میں کوئی آسرا نہیں
ان کے سبھی غموں کا مداوا ہے تیری ذات

تُو کھوج زاہدوں کی تُو ہی عشقِ اولیاء
عرفاں کی منزلوں کا حوالہ ہے تیری ذات

قاصر ہیں فلسفی ترے ادراک سے سبھی
جو سوچ سے پرے وہ معمّا ہے تیری ذات


سجاد بے عمل سا ہے اک بندۂِ حقیر
اِس کے لئے عطاؤں کا منبع ہے تیری ذات

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
صوتی قوافی خوب استعمال ہوئے ہیں!
مشکل کشا بھی تُوہے کہ حاجت روا بھی تُو
'کہ' لانے سے مفہوم یہ بنتا ہے کہ حاجت روا ہونے کے باعث تو مشکل کشا بن گیا ہے۔ الفاظ بدل کر 'کہ' دور کرو

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی پہ ہو
بندگی پہ ہونا محاورہ نہیں، اس کے بھی الفاظ بدل کر پھر کہو
باقی فی الحال تو درست لگ رہے ہیں اشعار
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
اعجاز صاحب کی تجاویز کے علاوہ یہ مصرع بھی کمزور ہے:
جو سوچ سے پرے وہ معمّا ہے تیری ذات
ایسی کوئی صورت نکالیں :
اب تک برائے عقل ...............

اِس کے لئے عطاؤں کا منبع ہے تیری ذات
" منبع" قافیہ نادرست -
لیکن زماں مکاں سے مبرّا ہے تیری ذات
ترکیب زمان و مکاں ہے ، زماں مکاں خاص جچتا نہیں -
باقی حمد اچھی ہے -جزاک الله خیر
 
السلام علیکم
اعجاز صاحب کی تجاویز کے علاوہ یہ مصرع بھی کمزور ہے:

ایسی کوئی صورت نکالیں :
اب تک برائے عقل ...............


" منبع" قافیہ نادرست -

ترکیب زمان و مکاں ہے ، زماں مکاں خاص جچتا نہیں -
باقی حمد اچھی ہے -جزاک الله خیر
شکریہ یاسر بھائی کوشش کرتا ہوں بہتری کی
 
صوتی قوافی خوب استعمال ہوئے ہیں!
مشکل کشا بھی تُوہے کہ حاجت روا بھی تُو
'کہ' لانے سے مفہوم یہ بنتا ہے کہ حاجت روا ہونے کے باعث تو مشکل کشا بن گیا ہے۔ الفاظ بدل کر 'کہ' دور کرو

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی پہ ہو
بندگی پہ ہونا محاورہ نہیں، اس کے بھی الفاظ بدل کر پھر کہو
باقی فی الحال تو درست لگ رہے ہیں اشعار
شکریہ سر کوشش کرتا ہوں الفاظ بدلنے کی
 
صوتی قوافی خوب استعمال ہوئے ہیں!
مشکل کشا بھی تُوہے کہ حاجت روا بھی تُو
'کہ' لانے سے مفہوم یہ بنتا ہے کہ حاجت روا ہونے کے باعث تو مشکل کشا بن گیا ہے۔ الفاظ بدل کر 'کہ' دور کرو

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی پہ ہو
بندگی پہ ہونا محاورہ نہیں، اس کے بھی الفاظ بدل کر پھر کہو
باقی فی الحال تو درست لگ رہے ہیں اشعار

سر نظر ثانی فرما دیجئیے

کچھ اس طرح جہان میں یکتا ہے تیری ذات
ہرہمسری سے شرک سے بالا ہے تیری ذات

بس تیری رحمتوں سے مزین ہے کائنات
ہر شے گدا ہے تیری کہ داتا ہے تیری ذات

قائم ہے تُو ازل سے ابد تک جہان میں
لیکن زماں مکاں سے مبرّا ہے تیری ذات

مشکل کشا ہے تُو مرا حاجت روا ہے تُو
مانگے بنا جو دے وہ مسیحا ہے تیری ذات

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی کرے
سب کے لئے کرم کا ذریعہ ہے تیری ذات

جن کے لئے جہاں میں کوئی آسرا نہیں
ان کے سبھی غموں کا مداوا ہے تیری ذات

تُو کھوج زاہدوں کی تُو ہی عشقِ اولیاء
عرفاں کی منزلوں کا حوالہ ہے تیری ذات

قاصر ہیں فلسفی ترے ادراک سے سبھی
اب تک برائے عقل معمّا ہے تیری ذات

سجاد بے عمل سا ہے اک بندۂِ حقیر
اِس کے لئے عطاؤں کا منبع ہے تیری ذات
 
سر نظر ثانی فرما دیجئیے

کچھ اس طرح جہان میں یکتا ہے تیری ذات
ہرہمسری سے شرک سے بالا ہے تیری ذات

بس تیری رحمتوں سے مزین ہے کائنات
ہر شے گدا ہے تیری کہ داتا ہے تیری ذات

قائم ہے تُو ازل سے ابد تک جہان میں
لیکن زماں مکاں سے مبرّا ہے تیری ذات

مشکل کشا ہے تُو مرا حاجت روا ہے تُو
مانگے بنا جو دے وہ مسیحا ہے تیری ذات

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی کرے
سب کے لئے کرم کا ذریعہ ہے تیری ذات

جن کے لئے جہاں میں کوئی آسرا نہیں
ان کے سبھی غموں کا مداوا ہے تیری ذات

تُو کھوج زاہدوں کی تُو ہی عشقِ اولیاء
عرفاں کی منزلوں کا حوالہ ہے تیری ذات

قاصر ہیں فلسفی ترے ادراک سے سبھی
اب تک برائے عقل معمّا ہے تیری ذات

سجاد بے عمل سا ہے اک بندۂِ حقیر
اِس کے لئے عطاؤں کا منبع ہے تیری ذات

یاسر شاہ بھائی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ منبع قافیہ کیوں درست نہیں جبکہ یہ صوتی قافیہ قبول کِیا جا سکتا ہے اگر اس کی کوئی وجہ ہے تو وضاحت کی خواہش کرتا ہوںصرف اپنی اصلاح کے لئےاگر بھائی کو گراں نہ گذرے تو
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر شاہ بھائی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ منبع قافیہ کیوں درست نہیں جبکہ یہ صوتی قافیہ قبول کِیا جا سکتا ہے اگر اس کی کوئی وجہ ہے تو وضاحت کی خواہش کرتا ہوںصرف اپنی اصلاح کے لئےاگر بھائی کو گراں نہ گذرے تو
بھائی باقی قوافی میں مشترک آخری حرف الف ہے جبکہ منبع میں" ع" -
حوالہ کی "ہ" کا اپنا تلفّظ تو نہیں یہ صوتی لحاظ سے الف جیسی ہے اس لیے "حوالہ" قافیہ ٹھیک ہے لیکن" ع " کا اپنا تلفّظ ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
اساتذہ سے ایک سوال: کیا یہ شعر تقابل ردیفین کے عیب کی زد میں آئے گا؟
رؤوف بھائی اساتذه بھی آتے ہی ہوں گے ،میرا تو خیال ہے تقابل ردیفین یا تکرار ردیفیں یا اجتماع ردیفین تب ہوتا جب مصرع اول میں بھی "کائنات" کی جگہ "تیری ذات" ہوتا -
 
بھائی باقی قوافی میں مشترک آخری حرف الف ہے جبکہ منبع میں" ع" -
حوالہ کی "ہ" کا اپنا تلفّظ تو نہیں یہ صوتی لحاظ سے الف جیسی ہے اس لیے "حوالہ" قافیہ ٹھیک ہے لیکن" ع " کا اپنا تلفّظ ہے -
یاسر بھائی اگر یوں کر لیا جائے تو شعر قبول ہو سکتا ہے

سجاد بے عمل سا ہے اک بندۂِ حقیر
اِس کے لئے عطا کا خزانہ ہے تیری ذات
 

الف عین

لائبریرین
اساتذہ سے ایک سوال: کیا یہ شعر تقابل ردیفین کے عیب کی زد میں آئے گا؟
تقابل قوافی کہا جا سکتا ہے، اگرچہ بدلا جا سکے تو اس شائبے سے بھی پاک ہو جاتا ہے شعر، ورنہ چل بھی سکتا ہے۔ میں نے اسی لیے اس پر گرفت نہیں کی تھی
 

الف عین

لائبریرین
منبع بھی اردو والے کھمبا کے طور پر ہی تلفظ کرتے ہیں، اسی لئے اسے صوتی قافیہ کے طور پر قبول کر لیا تھا۔
بھائی باقی قوافی میں مشترک آخری حرف الف ہے جبکہ منبع میں" ع" -
حوالہ کی "ہ" کا اپنا تلفّظ تو نہیں یہ صوتی لحاظ سے الف جیسی ہے اس لیے "حوالہ" قافیہ ٹھیک ہے لیکن" ع " کا اپنا تلفّظ ہے -
 

الف عین

لائبریرین
مشکل کشا ہے تُو مرا حاجت روا ہے تُو
مجھے اب بھی روانی کی کمی لگ رہی ہے
شاید دوسری 'ہے' کو 'بھی' سے بدلنے سے بہتر ہو جائے یعنی 'روا بھی تو'

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی کرے
یہ بھی روانی اچھی نہیں، شاید اسمیہ جملہ رواں ہو
سرکش ہو کوئی یا ترا بندہ ہو کوئی نیک
باقی دوسرے شعر میں بھی آخر کے لفظ کائنات کو بھی
جیسے
بس تیری رحمتوں سے ہے زینت جہان میں
جہان میں' کیونکہ اگلے ہی شعر میں بھی استعمال ہوا ہے اس لئے دونوں اشعار کے درمیان فاصلہ بڑھا دو، یعنی اُس شعر کو چھٹا شعر یا اس کے آس پاس کر دو
 
مشکل کشا ہے تُو مرا حاجت روا ہے تُو
مجھے اب بھی روانی کی کمی لگ رہی ہے
شاید دوسری 'ہے' کو 'بھی' سے بدلنے سے بہتر ہو جائے یعنی 'روا بھی تو'

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی کرے
یہ بھی روانی اچھی نہیں، شاید اسمیہ جملہ رواں ہو
سرکش ہو کوئی یا ترا بندہ ہو کوئی نیک
باقی دوسرے شعر میں بھی آخر کے لفظ کائنات کو بھی
جیسے
بس تیری رحمتوں سے ہے زینت جہان میں
جہان میں' کیونکہ اگلے ہی شعر میں بھی استعمال ہوا ہے اس لئے دونوں اشعار کے درمیان فاصلہ بڑھا دو، یعنی اُس شعر کو چھٹا شعر یا اس کے آس پاس کر دو
شکریہ سر
 
مشکل کشا ہے تُو مرا حاجت روا ہے تُو
مجھے اب بھی روانی کی کمی لگ رہی ہے
شاید دوسری 'ہے' کو 'بھی' سے بدلنے سے بہتر ہو جائے یعنی 'روا بھی تو'

کوئی ہو سرکشی پہ یا پھر بندگی کرے
یہ بھی روانی اچھی نہیں، شاید اسمیہ جملہ رواں ہو
سرکش ہو کوئی یا ترا بندہ ہو کوئی نیک
باقی دوسرے شعر میں بھی آخر کے لفظ کائنات کو بھی
جیسے
بس تیری رحمتوں سے ہے زینت جہان میں
جہان میں' کیونکہ اگلے ہی شعر میں بھی استعمال ہوا ہے اس لئے دونوں اشعار کے درمیان فاصلہ بڑھا دو، یعنی اُس شعر کو چھٹا شعر یا اس کے آس پاس کر دو
کچھ اس طرح جہان میں یکتا ہے تیری ذات
ہرہمسری سے شرک سے بالا ہے تیری ذات

بس تیری رحمتوں سے ہے زینت جہان میں
ہر شے گدا ہے تیری کہ داتا ہے تیری ذات

مشکل کشا بھی تُو مرا حاجت روا بھی تُو
مانگے بنا جو دے وہ مسیحا ہے تیری ذات

سر کش ہو کوئی یا ترا بندہ ہو کوئی نیک
سب کے لئے کرم کا ذریعہ ہے تیری ذات

جن کے لئے جہاں میں کوئی آسرا نہیں
ان کے سبھی غموں کا مداوا ہے تیری ذات

تُو کھوج زاہدوں کی تُو ہی عشقِ اولیاء
عرفاں کی منزلوں کا حوالہ ہے تیری ذات

قائم ہے تُو ازل سے ابد تک جہان میں
لیکن زماں مکاں سے مبرّا ہے تیری ذات

قاصر ہیں فلسفی ترے ادراک سے سبھی
اب تک برائے عقل معمّا ہے تیری ذات

سجاد بے عمل سا ہے اک بندۂِ حقیر
اِس کے لئے عطاؤں کا منبع ہے تیری ذات
 

الف عین

لائبریرین
پہلے اس سے صرف نظر ہو گیا تھا
ہر شے گدا ہے تیری کہ داتا ہے تیری ذات
شے؟ یا شخص، کوئی عاقل ہی کچھ مانگ سکتا ہے نا، غیر عاقل نہیں، شے کو بدلو
 
پہلے اس سے صرف نظر ہو گیا تھا
ہر شے گدا ہے تیری کہ داتا ہے تیری ذات
شے؟ یا شخص، کوئی عاقل ہی کچھ مانگ سکتا ہے نا، غیر عاقل نہیں، شے کو بدلو
سر اگر یوں کر لوں
بس تیری رحمتوں سے ہے زینت جہان میں
ہر شخص ہے فقیر کہ داتا ہے تیری ذات
 
Top