مریم افتخار
محفلین
زندگی ایک سَت رنگی دھنک ہے اور اِسے کسی ایک رنگ سے تعبیر کرنا سراسر نا انصافی....... مگر کوئی جتنا قریب ہَو , با اختیار ہَو , اُتنا ہی ہماری زندگی میں صرف ایک رنگ دیکھنے کا خواہاں اور ہمارے خوابوں کے جُگنوؤں کو قید کر لینے کا متمنّی ہوا کرتا ہے. رِشتوں کی کسوٹی پَر پُورا اُترتے اُترتے بالآخر ہم اپنا اصل کہیں کھو دیتے ہیں. قوسِ قزح کا توازن بگڑتا ہے اور ایسا بگڑتا ہے کہ زمین زادوں کی آنکھوں سے بنات النعش کے رخساروں تک سب کچھ لال نظر آنے لگتا ہے. جب ہم زندگی اپنے انداز میں جیتے ہیں تو اقرباء مرنے پر اصرار کرتے ہیں اور جب ہم مرنے کے لیے کمر کستے ہیں تَو حُکم ہوتا ہے کہ "جینا ہوگا" . آزادئ اظہار , جمہوریت اور حقِ رائے دہی جیسی اصطلاحات معاشرتی اور خانگی زندگی سے بالاتَر رکھی گئی ہَیں یا بظاہر تَو موجُود ہیں مگر پسِ پردہ ناقابلِ عمل. زندگی ایک ایسا سٹیج ہے جس میں بظاہر ہر شے ہنستی اور کھلکھلاتی ہے مگر پسِ پردہ زہر خَند..... ٹیلی ویژن , سوشل میڈیا اور رسالوں پر لوگوں کی ہنستی مُسکراتی تصاویر جلوہ افروز ہَیں , ہر عورت مسکراتی نظر آتی ہے اور ہَر مرد خُوش باش..... دل میں بغض و عناد کی آبیاری کرتے ہُوئے ہر شخص دوسرے شخص سے مسکرا کے مِلتا ہے. عورت صبح صبح سُرخی پاؤڈر لگا کر , چہرے پر مسکراہٹ سجائے , آنکھوں کی نمی گوگلز تلے چُھپائے اور جسم کے نِیل کپڑوں سے ڈھک کَر اس قدر کروفر سے آفس کے لیے نکلتی ہے کہ اس کے گھر والوں کے سوا کسی کو علم نہیں ہو پاتا کہ رات اِسے شوہر کے جُوتے , ڈوئی اور کِن کِن گھریلوآلاتِ تشدّد سے مار پڑتی رہی ہے....
مرد ہے تَو اس کی دلفریب مسکراہٹ اور حوصلے کا جواب نہیں. خود کو ایسا خوش باش اور پُروقار ظاہر کرے گا کہ جیسے اس سے زیادہ مسرور کوئی اور نہیں , مگر اندر نہ جانے کون کون سے غم پالے , ڈھیروں ذمّہ داریوں کا بوجھ لادے , ہزاروں نا دیدہ خدشوں سے آنکھیں چرائے ,سینکڑوں معاشی و خانگی الجھنوں کو سلجھاتے ہُوئے ,اپنے آپ سے لڑتے لڑتےمگر بظاہر پرسکون نظر آنے اور کبھی نہ رونے کا گَرو سمیٹتے بالآخر وہ ہار جاتا ہے اور سبھی کہتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے تک بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اچانک پتا نہیں کیا ہو گیا کہ دل کا دورہ پڑ گیا یا کام کرتے کرتے کرتے ہی شریان پھٹ گئی. انہیں کوئی کیسے سمجھائے کہ 'اچانک' کُچھ نہیں ہوا کرتا. مسکراہٹیں ایک خوش کُن پردہ ہیں اور زندگی اس پردے کے پیچھے ہے. حتٰی کہ شادی کے دن کئی جنازے ڈولیوں کی صورت اُٹھتے ہیں. لال کپڑوں میں رِیتوں اور رواجوں کی بھینٹ چڑھتی ہوئی زندہ لاش....مگر دلفریب مسکراہٹ لیے...مسکرانا تَو ہے ! کیونکہ مسکرانا زندگی ہے.... اجی کونسی زندگی؟ وہی زندگی جو صدیوں سے نزع کے عالم میں ٹھہری ہُوئی ہے؟
کوئی صدقہ جاریہ سمجھ کر مسکراتا ہے ، کوئی خوبصورت لگنے کے لیے .... اور کئی مجھ ایسے منہ چڑانے کے لیے مسکراتے ہیں , زندگی کو , مخالفین کو , مصائب کو اور کبھی کبھار خود اپنے آپ کو.ایک لطیفہ ماضی کے دریچوں سے جھانکتا اور دانت نکوستا ہے کہ دو عربی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کی گالیوں سے تواضع کر رہے تھے کہ ایک پاکستانی پاس سے گزرا اور ان کی "خوش الحانی" سے مرعوب ہو کر کہنے لگا : 'بھائیو! میرے لیے بھی دُعا کرنا .'کچھ یہی حال ہمارے یہاں کسی کو مسکراتے ہوئے دیکھنے کا ہے کہ حاسدین جل کر راکھ ہو جاتے ہیں اور احباب کے پیٹ میں مارے رشک کے مروڑ اُٹھتے ہیں.
زندگی کا سب کچھ پسِ پردہ ہے اور سٹیج پر نظر آتی ہوئی مسکراہٹیں اور قہقہے فقط دھوکا ہیں. ان کا نام کوئی مسرت رکھتا ہے اور کوئی منافقت, کوئی زندگی اور کوئی موت , کوئی حوصلہ اور کوئی ہار۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایسی سرد جنگوں میں صدیوں لڑ لڑ کر جو سمجھتے ہیں کہ وہ غازی لوٹیں گے , وہ غلط سمجھتے ہیں. ایسے فیصلہ کُن معرکوں کے بعد حالت کم و بیش ایسی ہوتی ہے کہ 'نہ خُدا ہے ملا نہ وصالِ صنم , نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے '۔
خُوش کوئی بھی نہیں ہو پاتا اور بَس ایک ہی فقرہ سننے کو ملتا ہےکہ پہلے تَو تُم ایسے نہیں تھے. جی کرتا ہے کہ ایسے اقارب کے صدقے واری جائیں اور کہیں کہ ' ارے! مُجھے پہلے بتایا ہوتا , جب میں آپ کو بھاتا تھا . تَب بھی لعن طعن فرماتے تھے اور اب بھی نِری ملامتیں ۔۔۔۔۔۔. زندگی لمحوں کو اپنے انداز سے گنوانے کا نام ہے. اگر ہم آپ کو اچھے لگتے ہیں تَو ہمیں بتائیے اور اگر بُرے لگتے ہیں تَو ہماری بُری باتیں اپنے اندر مَت آنے دیجئیے. اگر ہم اپنے جُھوٹ کے ساتھ خُوش ہیں تَو آپ کون ہوتے ہیں ہمیں سچائی کا آئینہ دکھانے والے؟ براہِ کرم دوسروں کی اصلاح کے چکّر میں ان پہ غور کرنا اور ان کو برباد کرنا بند فرمائیں اور کسی کی زیست کی دھنک پر ملگجا اندھیرا لپیٹنے سے پہلے آئینہ دیکھ کر کچھ تیرگٰٰیاں چن لیں تو بہتر ہوگا .'
مرد ہے تَو اس کی دلفریب مسکراہٹ اور حوصلے کا جواب نہیں. خود کو ایسا خوش باش اور پُروقار ظاہر کرے گا کہ جیسے اس سے زیادہ مسرور کوئی اور نہیں , مگر اندر نہ جانے کون کون سے غم پالے , ڈھیروں ذمّہ داریوں کا بوجھ لادے , ہزاروں نا دیدہ خدشوں سے آنکھیں چرائے ,سینکڑوں معاشی و خانگی الجھنوں کو سلجھاتے ہُوئے ,اپنے آپ سے لڑتے لڑتےمگر بظاہر پرسکون نظر آنے اور کبھی نہ رونے کا گَرو سمیٹتے بالآخر وہ ہار جاتا ہے اور سبھی کہتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے تک بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اچانک پتا نہیں کیا ہو گیا کہ دل کا دورہ پڑ گیا یا کام کرتے کرتے کرتے ہی شریان پھٹ گئی. انہیں کوئی کیسے سمجھائے کہ 'اچانک' کُچھ نہیں ہوا کرتا. مسکراہٹیں ایک خوش کُن پردہ ہیں اور زندگی اس پردے کے پیچھے ہے. حتٰی کہ شادی کے دن کئی جنازے ڈولیوں کی صورت اُٹھتے ہیں. لال کپڑوں میں رِیتوں اور رواجوں کی بھینٹ چڑھتی ہوئی زندہ لاش....مگر دلفریب مسکراہٹ لیے...مسکرانا تَو ہے ! کیونکہ مسکرانا زندگی ہے.... اجی کونسی زندگی؟ وہی زندگی جو صدیوں سے نزع کے عالم میں ٹھہری ہُوئی ہے؟
کوئی صدقہ جاریہ سمجھ کر مسکراتا ہے ، کوئی خوبصورت لگنے کے لیے .... اور کئی مجھ ایسے منہ چڑانے کے لیے مسکراتے ہیں , زندگی کو , مخالفین کو , مصائب کو اور کبھی کبھار خود اپنے آپ کو.ایک لطیفہ ماضی کے دریچوں سے جھانکتا اور دانت نکوستا ہے کہ دو عربی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کی گالیوں سے تواضع کر رہے تھے کہ ایک پاکستانی پاس سے گزرا اور ان کی "خوش الحانی" سے مرعوب ہو کر کہنے لگا : 'بھائیو! میرے لیے بھی دُعا کرنا .'کچھ یہی حال ہمارے یہاں کسی کو مسکراتے ہوئے دیکھنے کا ہے کہ حاسدین جل کر راکھ ہو جاتے ہیں اور احباب کے پیٹ میں مارے رشک کے مروڑ اُٹھتے ہیں.
زندگی کا سب کچھ پسِ پردہ ہے اور سٹیج پر نظر آتی ہوئی مسکراہٹیں اور قہقہے فقط دھوکا ہیں. ان کا نام کوئی مسرت رکھتا ہے اور کوئی منافقت, کوئی زندگی اور کوئی موت , کوئی حوصلہ اور کوئی ہار۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایسی سرد جنگوں میں صدیوں لڑ لڑ کر جو سمجھتے ہیں کہ وہ غازی لوٹیں گے , وہ غلط سمجھتے ہیں. ایسے فیصلہ کُن معرکوں کے بعد حالت کم و بیش ایسی ہوتی ہے کہ 'نہ خُدا ہے ملا نہ وصالِ صنم , نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے '۔
خُوش کوئی بھی نہیں ہو پاتا اور بَس ایک ہی فقرہ سننے کو ملتا ہےکہ پہلے تَو تُم ایسے نہیں تھے. جی کرتا ہے کہ ایسے اقارب کے صدقے واری جائیں اور کہیں کہ ' ارے! مُجھے پہلے بتایا ہوتا , جب میں آپ کو بھاتا تھا . تَب بھی لعن طعن فرماتے تھے اور اب بھی نِری ملامتیں ۔۔۔۔۔۔. زندگی لمحوں کو اپنے انداز سے گنوانے کا نام ہے. اگر ہم آپ کو اچھے لگتے ہیں تَو ہمیں بتائیے اور اگر بُرے لگتے ہیں تَو ہماری بُری باتیں اپنے اندر مَت آنے دیجئیے. اگر ہم اپنے جُھوٹ کے ساتھ خُوش ہیں تَو آپ کون ہوتے ہیں ہمیں سچائی کا آئینہ دکھانے والے؟ براہِ کرم دوسروں کی اصلاح کے چکّر میں ان پہ غور کرنا اور ان کو برباد کرنا بند فرمائیں اور کسی کی زیست کی دھنک پر ملگجا اندھیرا لپیٹنے سے پہلے آئینہ دیکھ کر کچھ تیرگٰٰیاں چن لیں تو بہتر ہوگا .'