فرحان محمد خان
محفلین
ہر ایک پل سے جواں رس نچوڑتے جاؤ
دلوں سے درد کا ناطہ بھی جوڑتے جاؤ
اگر سکوت ہے لازم ، زباں سے کچھ نہ کہو
مگر نظر سے دلوں کو جھنجوڑتے جاؤ
وہ کیا شراب جو ہر ہوش چھین لے ہم سے
بھرے ہیں جام تو ہر جام توڑتے جاؤ
لہو کی بُوند بھی کانٹوں پہ کم نہیں ہوتی
کوئی چراغ تو صحرا میں چھوڑتے جاؤ
زمانہ یاد رکھے گا ، تو کس بہانے سے
کوئی تو شعر دماغوں میں چھوڑتے جاؤ
کسی کا درد ہو اپنا ہی درد ہے یارو
جہاں جہاں بھی ملے غم بٹوڑتے جاؤ
دلوں سے درد کا ناطہ بھی جوڑتے جاؤ
اگر سکوت ہے لازم ، زباں سے کچھ نہ کہو
مگر نظر سے دلوں کو جھنجوڑتے جاؤ
وہ کیا شراب جو ہر ہوش چھین لے ہم سے
بھرے ہیں جام تو ہر جام توڑتے جاؤ
لہو کی بُوند بھی کانٹوں پہ کم نہیں ہوتی
کوئی چراغ تو صحرا میں چھوڑتے جاؤ
زمانہ یاد رکھے گا ، تو کس بہانے سے
کوئی تو شعر دماغوں میں چھوڑتے جاؤ
کسی کا درد ہو اپنا ہی درد ہے یارو
جہاں جہاں بھی ملے غم بٹوڑتے جاؤ
جاں نثار اختر