حسرت موہانی ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے

ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جسکا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے

کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے

کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے

بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے

اس بے نشاں کے ملنے کی حسرت ہوئی امید
آب بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے

(حسرت موہانی)​
 
1988 میں رئیس المتغزلین فضل بھائی کی یہ شاندار غزل نویں کلاس کے کورس میں پڑھی تھی ۔
آہ کیا زمانہ تھا۔
جیتی رہیئے مریم افتخار ۔
ہم نے بھی دس بارہ سال قبل اسے کورس میں ہی پڑھا تھا. آج ایک مصرع اسی زمین میں ہُوا تو یہ ذہن میں آئی اور ڈھونڈنے پر معلوم ہوا کہ محفل پر موجود نہ ہے، اس لیے جھٹ سے شریک کر دی. :)
 

جا ن

محفلین
واہ واہ، زبردست، مزہ آ گیا!
کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے

اس بے نشاں کے ملنے کی حسرت ہوئی امید
آب بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے

ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے
 
Top