مارگالہ عسکری
محفلین
اگر آپکو کوئی پاکستانی ڈرامہ یاد ہو تو ضرور شیئر کریں۔ یہاں کچھ ڈان نیوز کی جانب سے درجہ بندی اور تبصرے ہیں، کاپی پیسٹ کر رہا ہوں کیونکہ مجھے پسند آئے۔ کچھ معلومات غائب تھیں اسلئے قوسین میں لیا گیا مواد ربط کے ساتھ لکھ دیا۔
جب بات آتی ہے تفریح کی تو موجودہ دور میں ٹیلیویژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں۔
اور اس معاملے میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک جیسے ہندوستان سے بہت آگے ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی ایک انڈین چینل پر نئی نسل کے پاکستانی ڈراموں جیسے زندگی گلزار ہے، مات یا دیگر نے دھوم مچا کر رکھ دی ہے اور پاکستانی اداکار وہاں سپر اسٹار بن کر ابھرے ہیں۔
مگر کیا آپ کو وہ عہد یاد ہے جب کیبل یا ڈش کا وجود نہیں تھا اور گھروں میں پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی) کے ڈراموں کا سحر طاری رہتا تھا جن کا معیار آج کے ڈرامے بھی چھونے میں ناکام نظر آتے ہیں؟ تو ہم نے اس دور کے چند ڈراموں کی ناظرین کی پسندیدگی کے اعتبار سے درجہ بندی کی ہے جو ہو سکتا ہے آپ کی اپنی تیار کردہ فہرست سے بھی مطابقت رکھتی ہو تو پاکستان کے ہر دور کا سب سے بہترین ڈرامہ قرار پاتا ہے 'خدا کی بستی' جس کا جادو آج تک ختم نہیں ہو سکا ہے۔
خدا کی بستی
شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ 'خدا کی بستی' میں ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے شب و روز کو موضوع بنایا گیا ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ایک بستی میں آباد ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا ہر طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کمزوروں کی بے بسی، طاقتوروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکیداروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر رخ موجود تھا۔ اسی لیے یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ اس روز 'خدا کی بستی' نے نشر نہ ہونا ہو۔(وکی)
آنگن ٹیڑھا
مزاح اور حاضر جوابی کے جملے سے بھرپور یہ ڈرامہ انور مقصود کے کریئر کا بھی سب سے بڑا شو سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے پہلے روز سے یہ ڈرامہ سلیم ناصر، شکیل، بشریٰ انصاری اور دردانہ بٹ کی بے مثال اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسا بسا کہ اب تک اسے نکالا نہیں جا سکا ہے۔ ہر قسط میں مختلف مسائل کو ایسے پُر مزاح انداز میں پیش کیا جاتا کہ کسی کو گراں بھی نہیں گزرتا اور سماجی شعور بھی پیدا ہوتا۔ یہ ڈرامہ اب تک متعدد بار دوبارہ نشر ہو چکا ہے اور ہر نسل اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہے جبکہ اس پر ایک سٹیج ڈرامہ بھی تیار کیا گیا ہے۔(1980 کی دہائی کے آخر میں نشر ہوا۔ وکی)
جانگلوس
دو قیدی لالی اور رحیم داد کے جیل سے فرار کے بعد وسطی پنجاب کے پسِ منظر میں چلنے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کے ایک اور بہترین ناول کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی نے 1989 میں اس ڈرامے کو نشر کیا اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ ایم وارثی اور شبیر جان قیدیوں کے مرکزی کردار میں موجود تھے تو سلیم ناصر، شگفتہ اعجاز، ظہور احمد، اور دیگر نے بھی اپنے کریکٹرز سے بخوبی انصاف کیا۔ 'جانگلوس' میں با اختیار طبقے کے تاریک چہرے سے نقاب نوچا گیا تھا اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ تین حصوں پر مشتمل ناول کا ایک ہی حصہ ٹیلیویژن اسکرین کی زینت بنا تھا کہ اور پھر یہ ڈراما بند کروا دیا گیا۔ (وکی)
وارث
جن لوگوں کو ڈرامہ 'وارث' دیکھنے کا موقع ملا ہے انہیں یاد ہوگا کہ کس طرح اس کے نشر ہونے کے وقت صحرا کا منظر پیش ہونے لگتا تھا، جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرنے والا یہ ڈرامہ معروف شاعر امجد اسلام امجد کے قلم سے تحریر کئے گئے مضبوط سکرپٹ اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر کی گرفت کی بدولت ماسٹر پیس قرار دیا جا سکتا ہے۔ وارث جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی، بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے جس میں ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے پرستار چوہدری حشمت کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا جاندار کردار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا جبکہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر بھی اسے اپنی زندگی کا لازوال ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔ (1980 کی دہائی کے شروع میں اقساط کی شکل میں نشر کیا گیا ۔وکی)
تنہائیاں
تنہائیاں سٹار کاسٹ جیسے شہناز شیخ، آصف رضا میر، بدر خلیل، بہروز سبزواری اور مرینہ خان سے سجا ہوا تھا۔ اس ڈرامے کے ہر اداکار نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا اور اسے شاہکار بنا دیا۔ حسینہ معین کا سکرپٹ اور شہزاد خلیل کی ہدایات میں بننے والا یہ ڈرامہ دو بہنوں کے گرد گھومتا ہے جو ایک حادثے میں اپنے والدین سے محروم ہوجاتی ہیں اور خالہ کے ساتھ مل کر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے اور منزل کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے ان کا واسطہ کئی دلچسپ کرداروں سے پڑتا ہے اور یہ سفر دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔(1985 میں نشر ہوا۔وکی)
اندھیرا اجالا
یڈونچر پسند ناظرین آج تک پی ٹی وی پر نشر ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر مبنی ڈرامے 'اندھیرا اجالا' کو نہیں بھولے۔ 1984-85 میں یونس جاوید کی تحریر اور رشید ڈار کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے کو پاکستان میں جرائم کے خلاف پولیس کی مثبت کاوشوں کے اظہار کا پہلا ڈرامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ قوی خان نے اعلیٰ پولیس افسر کی شکل میں مرکزی کردار ادا کیا، تاہم جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے بھی اپنے کرداروں کو لازوال بنایا۔ اس ڈرامے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے عہد کے معروف اداکار فیصل قریشی بھی اس میں چائلڈ کریکٹر کی شکل میں موجود ہیں۔(وکی)
دھواں
پی ٹی وی کی تاریخ میں اگر کوئی پہلے ایکشن ڈرامے کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے تو وہ 'دھواں' ہی ہے۔ عاشر عظیم نے اسے تحریر کیا اور انہوں نے ہی پولیس افسر اور ایک خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار بھی کیا، جبکہ نبیل، نازلی نصر اور نیئر اعجاز کے کرداروں کو بھی آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ سجاد احمد کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیاں اور پولیس کی کمزوریوں کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی تھی جن سے نمٹنے کا بیڑہ چند نوجوان اٹھاتے ہیں، جن کی دوستی بھی دیکھنے والوں کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ اس ڈرامے کا المیہ اختتام بھی انتہائی پُراثر ثابت ہوا اور آج بھی اسے کلاسیک سمجھا جاتا ہے۔(1992 میں نشر ہوا۔ وکی)
آنچ
اداکار شفیع محمد کو شہرت دلانے والا یہ ڈرامہ گھریلو مسائل کو آشکار کرنے کے باعث خواتین میں تو بہت ہی زیادہ مقبول ہوا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی اور بڑے ہوتے بچوں کی سوتیلی ماں سے کشمکش یہ سب عوامل صاف ظاہر ہے خواتین کے دلوں کو کچھ زیادہ ہی بھائے جب ہی یہ ڈرامہ اپنے دور میں انتہائی مقبول ثابت ہوا بلکہ سڑکوں کو سنسان کر دینے کا باعث بنا۔ ناہید سلطانہ اختر کے ایک ناول کے خیال پر مبنی اس ڈرامے کی ہدایات طارق جمیل نے دیں جبکہ شفیع محمد اور شگفتہ اعجاز نے مرکزی کردار ادا کئے۔ (لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا وکی)
من چلے کا سودا
پی ٹی وی کا ایک اور کلاسیک ڈرامہ جس پر اس زمانے میں کافی اعتراضات بھی سامنے آئے۔ معروف مصنف اشفاق احمد نے اسے تحریر کیا جو روحانیت کی جانب لگاﺅ رکھتے تھے جس کا اظہار اس ڈرامے میں بھی ہوتا ہے۔ فردوس جمال، خیام سرحدی اور قوی خان کو لے کر ہدایتکار رشید ڈار نے اس ڈرامے کو تیار کیا جس میں ایک ماڈرن شخص کو اپنی زندگی سے بیزاری کے بعد صوفی ازم اور روحانیت کی جانب مائل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس سفر پر اکثر حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم اس کے باوجود یہ ڈرامہ اپنے دور میں سپر ہٹ ثابت ہوا۔(لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا۔ لسٹ میں بھی نہیں ہے وکی)
شمع
یہ ڈراما اگرچہ بلیک اینڈ وائٹ تھا مگر اس کے باوجود یہ نشر ہوتے ہی لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ اے آر خاتون کے ناول کو لے کر فاطمہ ثریا بجیا نے اسے ڈرامائی شکل دی اور ٹی وی پر اپنے طویل سفر کا آغاز کیا۔ لیجنڈ ہدایتکار قاسم جلالی نے اس ڈرامے کو حقیقی زندگی کے اتنے قریب کر دیا کہ اسے دیکھنے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گھر کی کہانی ٹی وی پر بیان کی جا رہی ہے۔ جاوید شیخ، قربان جیلانی، عشرت حسین اور دیگر کی جاندار اور زبردست اداکاری نے بھی اسے مقبول ترین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔(لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا وکی)
راہیں
مرحوم مصنف منشا یاد کے پنجابی ناول ٹاواں ٹاواں تارا کو جب اردو شکل میں پی ٹی وی کے لیے ڈھالا گیا تو وہ 'راہیں' کی شکل میں ایک مقبول ترین سیریل ثابت ہوا، جس نے 1998 میں پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ طارق جمیل کی ہدایات سے سجے اس ڈرامے میں شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ اس میں دیہی عوام کو سیدھا اور شہری افراد کو نخریلا دکھایا گیا اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ توقیر ناصر، سلیم شیخ، حبیب اور غیور اختر سمیت ہر اداکار اپنے کردار میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح فٹ نظر آیا اور ان کا جادو اتنے عرصے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے۔(لنک نہیں ملا۔ وکی)
ان کہی
ان کہی پاکستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے خاص طور پر شہناز شیخ، جاوید شیخ، شکیل، سلیم ناصر، بہروز سبزواری اور جمشید انصاری کی بے مثال اداکاری اور دلوں میں گھر کر جانے والے ڈائیلاگز آج تک یاد کئے جاتے ہیں۔ شعیب منصور نے 1982 میں نشر ہونے والے اس ڈرامے کی ہدایات دی تھیں جبکہ یہ حسینہ معین کے قلم کا شاہکار تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر حسینہ معین اور شہناز شیخ کا طوطی بولتا تھا اور اس ڈرامے میں بھی ان کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ خاص طور پر شہناز شیخ کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ناظرین کے دلوں میں ایسی بسیں کہ آج تک وہی موجود ہیں جبکہ اسی تھیم پر ہندوستان میں کئی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔(وکی)
دھوپ کنارے
یہ ڈراما بھی حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار تھا جب کہ ہدایات راحت کاظمی کی بیگم اور معروف اداکار ساحرہ کاظمی نے دی تھیں۔ مرینہ خان اور راحت کاظمی کو اس ڈرامے کے بعد بہترین آن سکرین جوڑا تسلیم کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی زندگی پر بننے والا یہ ڈرامہ سنجیدہ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد ہی گھومتا ہے اور ان کی کیمسٹری نے اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک بنا دیا۔ (1987 میں نشر ہوا۔ وکی)
دشت
اس ڈرامے کی عکس بندی بلوچستان کے علاقے دشت میں ہوئی۔ یہ ڈراما دو مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے جوڑے کے گرد گھومتا ہے جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر شادی کر لیتے ہیں اور یہ چیز دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح یہ ڈرامہ دلچسپ انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ اداکار عابد علی نے اس کی ہدایات دیں اور عتیقہ اوڈھو، نعمان اعجاز اور اسد سمیت دیگر نے اس میں اپنی زندگی کے بہترین کردار ادا کئے۔(لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا۔ وکی)
الفا براوو چارلی
اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئی اس ڈراما سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اس وقت تک سکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داﺅ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈز توڑ دیئے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی مزہ آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔ (1998 میں نشر ہوا۔ فراز انعام(کردار فراز احمد)، کیپٹن عبداللّہ محمود (کردار کاشف کرمانی)، کیپٹن قاسم خان(کردار گل شیر)، شہناز خواجہ(کردار شہناز شیر)،ارشد کاظمی، وقار احمد، حشمت شیخ، ملک عطاء محمد خان(کردار ملک عطاء محمد خان) اسکے اہم اداکار ہیں۔ وکی)
یہ سب ڈرامہ سیریل تھے۔ اگر آپکو کوئی عمدہ پاکستانی فلم بھی پسند آئے تو ضرور شیئر کریں۔
جب بات آتی ہے تفریح کی تو موجودہ دور میں ٹیلیویژن عام افراد کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاسکتا ہے اور اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں کے علاوہ کس کی ہو سکتی ہے جس میں معاشرے کے مختلف رنگوں کی کہانیاں لوگوں کو اپنے سامنے باندھے رکھتی ہیں۔
اور اس معاملے میں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک جیسے ہندوستان سے بہت آگے ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی ایک انڈین چینل پر نئی نسل کے پاکستانی ڈراموں جیسے زندگی گلزار ہے، مات یا دیگر نے دھوم مچا کر رکھ دی ہے اور پاکستانی اداکار وہاں سپر اسٹار بن کر ابھرے ہیں۔
مگر کیا آپ کو وہ عہد یاد ہے جب کیبل یا ڈش کا وجود نہیں تھا اور گھروں میں پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی) کے ڈراموں کا سحر طاری رہتا تھا جن کا معیار آج کے ڈرامے بھی چھونے میں ناکام نظر آتے ہیں؟ تو ہم نے اس دور کے چند ڈراموں کی ناظرین کی پسندیدگی کے اعتبار سے درجہ بندی کی ہے جو ہو سکتا ہے آپ کی اپنی تیار کردہ فہرست سے بھی مطابقت رکھتی ہو تو پاکستان کے ہر دور کا سب سے بہترین ڈرامہ قرار پاتا ہے 'خدا کی بستی' جس کا جادو آج تک ختم نہیں ہو سکا ہے۔
خدا کی بستی
شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ 'خدا کی بستی' میں ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے شب و روز کو موضوع بنایا گیا ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ایک بستی میں آباد ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا ہر طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کمزوروں کی بے بسی، طاقتوروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکیداروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر رخ موجود تھا۔ اسی لیے یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ اس روز 'خدا کی بستی' نے نشر نہ ہونا ہو۔(وکی)
آنگن ٹیڑھا
مزاح اور حاضر جوابی کے جملے سے بھرپور یہ ڈرامہ انور مقصود کے کریئر کا بھی سب سے بڑا شو سمجھا جا سکتا ہے۔ اپنے پہلے روز سے یہ ڈرامہ سلیم ناصر، شکیل، بشریٰ انصاری اور دردانہ بٹ کی بے مثال اداکاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں ایسا بسا کہ اب تک اسے نکالا نہیں جا سکا ہے۔ ہر قسط میں مختلف مسائل کو ایسے پُر مزاح انداز میں پیش کیا جاتا کہ کسی کو گراں بھی نہیں گزرتا اور سماجی شعور بھی پیدا ہوتا۔ یہ ڈرامہ اب تک متعدد بار دوبارہ نشر ہو چکا ہے اور ہر نسل اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتی ہے جبکہ اس پر ایک سٹیج ڈرامہ بھی تیار کیا گیا ہے۔(1980 کی دہائی کے آخر میں نشر ہوا۔ وکی)
جانگلوس
دو قیدی لالی اور رحیم داد کے جیل سے فرار کے بعد وسطی پنجاب کے پسِ منظر میں چلنے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کے ایک اور بہترین ناول کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی نے 1989 میں اس ڈرامے کو نشر کیا اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ ایم وارثی اور شبیر جان قیدیوں کے مرکزی کردار میں موجود تھے تو سلیم ناصر، شگفتہ اعجاز، ظہور احمد، اور دیگر نے بھی اپنے کریکٹرز سے بخوبی انصاف کیا۔ 'جانگلوس' میں با اختیار طبقے کے تاریک چہرے سے نقاب نوچا گیا تھا اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ تین حصوں پر مشتمل ناول کا ایک ہی حصہ ٹیلیویژن اسکرین کی زینت بنا تھا کہ اور پھر یہ ڈراما بند کروا دیا گیا۔ (وکی)
وارث
جن لوگوں کو ڈرامہ 'وارث' دیکھنے کا موقع ملا ہے انہیں یاد ہوگا کہ کس طرح اس کے نشر ہونے کے وقت صحرا کا منظر پیش ہونے لگتا تھا، جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرنے والا یہ ڈرامہ معروف شاعر امجد اسلام امجد کے قلم سے تحریر کئے گئے مضبوط سکرپٹ اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر کی گرفت کی بدولت ماسٹر پیس قرار دیا جا سکتا ہے۔ وارث جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی، بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے جس میں ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے پرستار چوہدری حشمت کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا جاندار کردار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا جبکہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر بھی اسے اپنی زندگی کا لازوال ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔ (1980 کی دہائی کے شروع میں اقساط کی شکل میں نشر کیا گیا ۔وکی)
تنہائیاں
تنہائیاں سٹار کاسٹ جیسے شہناز شیخ، آصف رضا میر، بدر خلیل، بہروز سبزواری اور مرینہ خان سے سجا ہوا تھا۔ اس ڈرامے کے ہر اداکار نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا اور اسے شاہکار بنا دیا۔ حسینہ معین کا سکرپٹ اور شہزاد خلیل کی ہدایات میں بننے والا یہ ڈرامہ دو بہنوں کے گرد گھومتا ہے جو ایک حادثے میں اپنے والدین سے محروم ہوجاتی ہیں اور خالہ کے ساتھ مل کر زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے اور منزل کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے ان کا واسطہ کئی دلچسپ کرداروں سے پڑتا ہے اور یہ سفر دیکھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔(1985 میں نشر ہوا۔وکی)
اندھیرا اجالا
یڈونچر پسند ناظرین آج تک پی ٹی وی پر نشر ہونے والے جرائم کی تحقیقات پر مبنی ڈرامے 'اندھیرا اجالا' کو نہیں بھولے۔ 1984-85 میں یونس جاوید کی تحریر اور رشید ڈار کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے کو پاکستان میں جرائم کے خلاف پولیس کی مثبت کاوشوں کے اظہار کا پہلا ڈرامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ قوی خان نے اعلیٰ پولیس افسر کی شکل میں مرکزی کردار ادا کیا، تاہم جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے بھی اپنے کرداروں کو لازوال بنایا۔ اس ڈرامے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے عہد کے معروف اداکار فیصل قریشی بھی اس میں چائلڈ کریکٹر کی شکل میں موجود ہیں۔(وکی)
دھواں
پی ٹی وی کی تاریخ میں اگر کوئی پہلے ایکشن ڈرامے کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے تو وہ 'دھواں' ہی ہے۔ عاشر عظیم نے اسے تحریر کیا اور انہوں نے ہی پولیس افسر اور ایک خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار بھی کیا، جبکہ نبیل، نازلی نصر اور نیئر اعجاز کے کرداروں کو بھی آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ سجاد احمد کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیاں اور پولیس کی کمزوریوں کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی تھی جن سے نمٹنے کا بیڑہ چند نوجوان اٹھاتے ہیں، جن کی دوستی بھی دیکھنے والوں کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ اس ڈرامے کا المیہ اختتام بھی انتہائی پُراثر ثابت ہوا اور آج بھی اسے کلاسیک سمجھا جاتا ہے۔(1992 میں نشر ہوا۔ وکی)
آنچ
اداکار شفیع محمد کو شہرت دلانے والا یہ ڈرامہ گھریلو مسائل کو آشکار کرنے کے باعث خواتین میں تو بہت ہی زیادہ مقبول ہوا۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی اور بڑے ہوتے بچوں کی سوتیلی ماں سے کشمکش یہ سب عوامل صاف ظاہر ہے خواتین کے دلوں کو کچھ زیادہ ہی بھائے جب ہی یہ ڈرامہ اپنے دور میں انتہائی مقبول ثابت ہوا بلکہ سڑکوں کو سنسان کر دینے کا باعث بنا۔ ناہید سلطانہ اختر کے ایک ناول کے خیال پر مبنی اس ڈرامے کی ہدایات طارق جمیل نے دیں جبکہ شفیع محمد اور شگفتہ اعجاز نے مرکزی کردار ادا کئے۔ (لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا وکی)
من چلے کا سودا
پی ٹی وی کا ایک اور کلاسیک ڈرامہ جس پر اس زمانے میں کافی اعتراضات بھی سامنے آئے۔ معروف مصنف اشفاق احمد نے اسے تحریر کیا جو روحانیت کی جانب لگاﺅ رکھتے تھے جس کا اظہار اس ڈرامے میں بھی ہوتا ہے۔ فردوس جمال، خیام سرحدی اور قوی خان کو لے کر ہدایتکار رشید ڈار نے اس ڈرامے کو تیار کیا جس میں ایک ماڈرن شخص کو اپنی زندگی سے بیزاری کے بعد صوفی ازم اور روحانیت کی جانب مائل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس سفر پر اکثر حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے تاہم اس کے باوجود یہ ڈرامہ اپنے دور میں سپر ہٹ ثابت ہوا۔(لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا۔ لسٹ میں بھی نہیں ہے وکی)
شمع
یہ ڈراما اگرچہ بلیک اینڈ وائٹ تھا مگر اس کے باوجود یہ نشر ہوتے ہی لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ اے آر خاتون کے ناول کو لے کر فاطمہ ثریا بجیا نے اسے ڈرامائی شکل دی اور ٹی وی پر اپنے طویل سفر کا آغاز کیا۔ لیجنڈ ہدایتکار قاسم جلالی نے اس ڈرامے کو حقیقی زندگی کے اتنے قریب کر دیا کہ اسے دیکھنے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گھر کی کہانی ٹی وی پر بیان کی جا رہی ہے۔ جاوید شیخ، قربان جیلانی، عشرت حسین اور دیگر کی جاندار اور زبردست اداکاری نے بھی اسے مقبول ترین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔(لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا وکی)
راہیں
مرحوم مصنف منشا یاد کے پنجابی ناول ٹاواں ٹاواں تارا کو جب اردو شکل میں پی ٹی وی کے لیے ڈھالا گیا تو وہ 'راہیں' کی شکل میں ایک مقبول ترین سیریل ثابت ہوا، جس نے 1998 میں پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ طارق جمیل کی ہدایات سے سجے اس ڈرامے میں شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔ اس میں دیہی عوام کو سیدھا اور شہری افراد کو نخریلا دکھایا گیا اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ توقیر ناصر، سلیم شیخ، حبیب اور غیور اختر سمیت ہر اداکار اپنے کردار میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح فٹ نظر آیا اور ان کا جادو اتنے عرصے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے۔(لنک نہیں ملا۔ وکی)
ان کہی
ان کہی پاکستان کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے خاص طور پر شہناز شیخ، جاوید شیخ، شکیل، سلیم ناصر، بہروز سبزواری اور جمشید انصاری کی بے مثال اداکاری اور دلوں میں گھر کر جانے والے ڈائیلاگز آج تک یاد کئے جاتے ہیں۔ شعیب منصور نے 1982 میں نشر ہونے والے اس ڈرامے کی ہدایات دی تھیں جبکہ یہ حسینہ معین کے قلم کا شاہکار تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پی ٹی وی پر حسینہ معین اور شہناز شیخ کا طوطی بولتا تھا اور اس ڈرامے میں بھی ان کا جادو سرچڑھ کر بولا۔ خاص طور پر شہناز شیخ کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ناظرین کے دلوں میں ایسی بسیں کہ آج تک وہی موجود ہیں جبکہ اسی تھیم پر ہندوستان میں کئی فلمیں بھی تیار کی گئیں۔(وکی)
دھوپ کنارے
یہ ڈراما بھی حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار تھا جب کہ ہدایات راحت کاظمی کی بیگم اور معروف اداکار ساحرہ کاظمی نے دی تھیں۔ مرینہ خان اور راحت کاظمی کو اس ڈرامے کے بعد بہترین آن سکرین جوڑا تسلیم کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی زندگی پر بننے والا یہ ڈرامہ سنجیدہ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد ہی گھومتا ہے اور ان کی کیمسٹری نے اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک بنا دیا۔ (1987 میں نشر ہوا۔ وکی)
دشت
اس ڈرامے کی عکس بندی بلوچستان کے علاقے دشت میں ہوئی۔ یہ ڈراما دو مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے جوڑے کے گرد گھومتا ہے جو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو کر شادی کر لیتے ہیں اور یہ چیز دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کا سبب بن جاتی ہے اور اس طرح یہ ڈرامہ دلچسپ انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ اداکار عابد علی نے اس کی ہدایات دیں اور عتیقہ اوڈھو، نعمان اعجاز اور اسد سمیت دیگر نے اس میں اپنی زندگی کے بہترین کردار ادا کئے۔(لنک نہیں ملا پتہ نہیں کب نشر ہوا۔ وکی)
الفا براوو چارلی
اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئی اس ڈراما سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اس وقت تک سکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔ اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داﺅ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈز توڑ دیئے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی مزہ آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔ (1998 میں نشر ہوا۔ فراز انعام(کردار فراز احمد)، کیپٹن عبداللّہ محمود (کردار کاشف کرمانی)، کیپٹن قاسم خان(کردار گل شیر)، شہناز خواجہ(کردار شہناز شیر)،ارشد کاظمی، وقار احمد، حشمت شیخ، ملک عطاء محمد خان(کردار ملک عطاء محمد خان) اسکے اہم اداکار ہیں۔ وکی)
یہ سب ڈرامہ سیریل تھے۔ اگر آپکو کوئی عمدہ پاکستانی فلم بھی پسند آئے تو ضرور شیئر کریں۔
آخری تدوین: