ولی دکنی ہر رات اپنے لطف و کرم سے ملا کرو - ولی دکنی

کاشفی

محفلین
غزل
(ولی دکنی)

ہر رات اپنے لطف و کرم سے ملا کرو
ہر دن کو عید جان گلے سے لگا کرو

حق اُس کو ہمکلام رکھے مجھ سے رات دن
اس بات سے مدام رقیبو جلا کرو

وعدہ کیا تھا رات کو آؤنگا صبح میں
اے مہربان وعدہ کو اپنے وفا کرو

کب تک رکھو گے طرز تغافل کو دل میں تم
ٹک کان دھر کے حال کسی کا سنا کرو

آیا ہوں احتیاج سے تم پاس اے صنم
اپنے لبوں کے خضر کو حاجت روا کرو

اک بات ہے ولی کی سنو کان رکھ صنم
میرے رواق چشم میں دائم رہا کرو
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔

تیسرے شعر میں مہربان ہے (نون معلنہ کے ساتھ)، مہرباں (نون غنہ کے ساتھ) غلط ہے۔



کب تک رکھو گے طرز تغافل کو دل میں
ٹک کان دھر کے حال کسی کا سنا کرو

اس شعر کا پہلا مصرع مکمل نہیں ہے، "دل میں" کے بعد کوئی لفظ ہونا چاہیے تم وغیرہ کہ وزن پورا نہیں ہورہا۔
 
ہر رات اپنے لطف و کرم سوں ملا کرو​
ہر دن کو عید بوجھ گلے سے لگا کرو​
وعدہ کیے تھے رات کہ آؤنگا صبح میں​
اے مہربان وعدے کو اپنے وفا کرو​
حق تجھ سوں ہمکلام رکھے مجھ کو رات دن​
اس بات سے مُدام رقیباں جلا کرو​
کب تک رکھو گے طرزِ تغافل کو دل منے​
ٹُک کان دھر کے حال کسی کا سنا کرو​
جب تک ہے آسمان و زمیں جگ میں برقرار​
جیوں پھول اس جہاں کے چمن میں ہنسا کرو​
آیا ہوں اِحتیاج لے تم پاس اے صنم​
اپنے لبوں کے خضر سوں حاجت روا کرو​
یک بات ہے ولیؔ کی سنو کان رکھ سجن​
میری انکھاں کے باغ میں دائم رہا کرو​
 
Top