اسامہ جمشید
محفلین
ہر روز غنیمت ہے ہر رات غنیمت ہے
ہر لفظ یہاں مشکل ہر بات غنیمت ہے
جذبوں کی نہیں قیمت ایمان کہاں جائے
ہر جیت یہاں جھوٹی ہر مات غنیمت ہے
ہر وقت نہیں ملتی ہر شخص نہیں پاتا
جیسی بھی ہو لے جاؤ خیرات غنیمت ہے
ہر سوز بغاوت ہے ہر ساز تجارت ہے
سوتوں کو جگادیں گر نغمات غنیمت ہے
دیکھاہے اجالے میں اک خوف بھرا عالم
سورج کے زمانے میں ظلمات غنیمت ہے
اب کفر نے للکارا تو ہوش سی آئی ہے
ویران سے صحرا میں أموات غنیمت ہے
نکلی ہے مگر پھر بھی کچھ دیر سے نکلی ہے
جمشیدؔ یہ آہوں کی بارات غنیمت ہے