امجد علی راجا
محفلین
کیا کچھ نہیں خرید کا سامان یہاں پر
ہر روز بک رہا ہے ہر انسان یہاں پر
نیلام پر لگے ہوئے ایمان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
ہر جرم، پاپ، جسم فروشی کی رذالت
افلاس کا نتیجہ ہے ہر ایک ضلالت
سمجھا گیا غریب کو حیوان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
افلاس، بھوک، ظلم و الم، فکر معیشت
دکھ درد، کرب، رنج و تعب، یاس، مصیبت
خالی نہیں کسی کا بھی دامان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
سچ بولنا ہے جرم، یہاں ہے یہی دستور
سچ بات جس نے کی اسے سمجھا گیا ناسور
کوئی نہیں ہے سچ کا قدردان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
اس دور کا ہے صاحبِ زر صاحبِ عزت
قانون بھی اسی کا ہے جو صاحبِ دولت
حیرت کی آنکھ خود بھی ہے حیران یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
انسان خواہشات کے ہاتھوں ہوا مجبور
انسانیت سے ہوگئے ہم دور، بہت دور
انسانیت ہے خود بھی پریشان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
انسان زندگی سے ہے مایوس، غضب ہے
ہوتی نہیں ہے زندگی محسوس، غضب ہے
لگتی ہے زندگی بھی اب انجان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
اپنی ہی آستیں کے ہمیں ڈس رہے ہیں سانپ
انسان مٹ چکے ہیں یہاں بس رہے ہیں سانپ
انساں کے روپ میں ہیں کچھ حیوان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
راجا نہیں رہا کوئی عزت کا تحفظ
محفوظ آدمی ہے نہ عصمت کا تحفظ
ہر حال کامیاب ہے شیطان یہاں پر
ہر روز لٹ رہا ہے ہر انسان یہاں پر
الف عین محمد یعقوب آسی محمد خلیل الرحمٰن سید شہزاد ناصر افلاطون الشفاء امر شہزاد باباجی ذوالقرنین شمشاد شوکت پرویز شہزاد احمد شیزان عمراعظم محسن وقار علی سید زبیر محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد وارث محمد احمد مقدس مہ جبین نیرنگ خیال نیلم یوسف-2 نایاب متلاشی مغزل مزمل شیخ بسمل نگار ف