امجد علی راجا
محفلین
ہر شے سے بڑھ کے جس کی وفاؤں کی چاہ کی
آخر اسی نے زندگی میری تباہ کی
چاہت بھری ادا نہ سہی، بے رخی سہی
صد شکر اس نے ہم پہ بھی اپنی نگاہ کی
جب بھی گزر ہوا ترے دلشاد شہر سے
آنکھوں سے خاک چوم لی ہر ایک راہ کی
بے مثل شاہکار پہ کٹوا دیئے ہیں ہاتھ
ہائے یہ شان منصفی عالم پناہ کی
انسانیت کے جسم پہ ہر روز زخم نو
ہر روز گونجتی ہے صدا آہ آہ کی
آتی نہیں ہے راس ہمیں جانتے ہیں ہم
پھر بھی وفا سبھی سے کی اور بے پناہ کی
راجا مری ادا پہ تو مقتل بھی جھوم اٹھا
بے اختیار موت نے بھی واہ واہ کی
الف عین محمد یعقوب آسی امجد میانداد باباجی ذوالقرنین سید زبیر سید شہزاد ناصر شوکت پرویز شیزان عمراعظم متلاشی محسن وقار علی محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد خلیل الرحمٰن محمداحمد مزمل شیخ بسمل مقدس مہ جبین نایاب نیرنگ خیال نیلم یوسف-2 محمد وارث افلاطون فارقلیط رحمانی شہزاد احمد عینی شاہ نگار ف ساجد