کاشفی
محفلین
غزل
خواجہ میر درد
ہر طرح زمانے کے ہاتھوں سے ستم دیدہ
گر دل ہوں تو آزردہ خاطر ہوں تو رنجیدہ
ہم گلشنِ دوراں میں اے خفتگیِ طالع
سرسبز تو ہیں لیکن جوں سبزہ خوابیدہ
اے شورِ قیامت رہ اُدھر ہی میں کہتا ہوں
چوں کے ہے ابھی یاں سے کوئی دل شوریدہ
اوروں سے تو ہنستے ہو نظروں سے ملا نظریں
اِدھر کو نظر کوئی پھینکی بھی تو دزدیدہ
مجھ پر بھی تو یہ عقدہ تو کھول صبا با رے
زلفوں نے کسے بھیجا یہ نامہ پیچیدہ
بدخواہ سبھی عالم گو ہووے تو ہو لیکن
یارب نہ کسی کے ہوں دشمن یہ دل و دیدہ
کرتا ہے جگہ دل میں چوں ابروئے پیوستہ
اے درد یہ تیرا تو ہر مصرعہ چسپیدہ