خرم شہزاد خرم
لائبریرین
ہر طرف ہیں موت کی پرچھائیاں
زندگی لے کس طرح انگڑائیاں
اک طرف ماتم تھا پورے شہر میں
اک گلی بجتی رہیں شہنائیاں
خوف ہی بس خوف ہے پھیلا ہوا
اب کہاں پہلی سی وہ رعنائیاں
اس قدر مخلوق ہے لیکن مجھے
آ رہی ہیں نظر بس تنہائیاں
بات یہ خرم تمہیں معلوم ہے
عشق کا حاصل رہیں رسوائیاں
خرم
زندگی لے کس طرح انگڑائیاں
اک طرف ماتم تھا پورے شہر میں
اک گلی بجتی رہیں شہنائیاں
خوف ہی بس خوف ہے پھیلا ہوا
اب کہاں پہلی سی وہ رعنائیاں
اس قدر مخلوق ہے لیکن مجھے
آ رہی ہیں نظر بس تنہائیاں
بات یہ خرم تمہیں معلوم ہے
عشق کا حاصل رہیں رسوائیاں
خرم