ہر عِشق کے پیچھے مُجھے مہ رُو نظر آیا غزل نمبر 126 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہر عِشق کے پیچھے مُجھے مہ رُو نظر آیا
ہر اِک حسیں پر عِشق کا قابو نظر آیا

گُلشن میں سبھی پُھول کی رنگت کے تھے طالب
بُلبُل ہی فقط عاشقِ خُوشبو نظر آیا

ہے چاند رُخِ یار کے جیسا مُجھے دِکھتا
بادل مُجھے محبوب کا گیسُو نظر آیا

عُشاقِ حقیقی کو یہ کہتے بھی سُنا ہے
اے ربِ سماوات مُجھے تُو نظر آیا

اے ظُلمتِ شب دیکھ تری خیر نہیں، گر
تاریکیوں میں ایک بھی جُگنو نظر آیا

مالی ترے چمن کا خُدا حافظ و ناصر
ہر شاخ پہ بیٹھا مُجھے اُلو نظر آیا

یہ تو نظر آیا مرے چہرے پہ خُوشی ہے
لیکن نہ مری آنکھ میں آنسُو نظر آیا

غالب کو سکندر کہوں اشعار میں
شارؔق
غزلوں میں مُجھے مِیر، ارسطُو نظر آیا
 

امین شارق

محفلین
استاد محترم میں نے دوبارہ چیک کیا ہے دو بحروں کا اختلاط نہیں ہے ایک ہی بحر ہے مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن ۔۔
 

امین شارق

محفلین
اگر دوسرا مصرع اس طرح کہا جائے تو کیسا رہے گا؟

ہر عِشق کے پیچھے مُجھے مہ رُو نظر آیا
ہر خُوبرو پر عِشق کا قابو نظر آیا
 
اگر دوسرا مصرع اس طرح کہا جائے تو کیسا رہے گا؟

ہر عِشق کے پیچھے مُجھے مہ رُو نظر آیا
ہر خُوبرو پر عِشق کا قابو نظر آیا
خوب‌رو فارسی الاصل ہے، اس کا و ساقط نہیں کیا جا سکتا۔
تاریکیوں میں ایک بھی جُگنو نظر آیا
تاریکیوں میں مصوتوں کا اسقاط روانی کو بہت متاثر کر رہا ہے۔ کوئی متبادل لفظ تلاش کیجیے۔
محمد عبالرؤوف بھائی اس مصرع میں کہاں غلطی ہے رہنمائی فرمائیں۔۔
چمن کو چمّن باندھا ہے آپ نے، اسے گلشن سے تبدیل کر دیں۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
شارق بھائی! مجھے ردیف میں بھی "آیا" کی بجائے "آئے" زیادہ بہتر لگ رہا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اس سے متعلق استاد صاحب سے مشورہ کر لیں۔
 
Top