ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں ------- اختر عبدالرزاق

مغزل

محفلین
غزل

ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں
خار سے بچتا ہوں انگار پہ رکھ دیتا ہوں

پھول پھینکے کوئی دیوار کے پیچھے سے اگر
پھر اٹھا کر اسے دیوار پہ رکھ دیتا ہوں

جنگجو ایسا کہ خود ہارتا ہوں ہر بازی
اور الزام میں تلوار پہ رکھ دیتا ہوں

وہ جو اک بار چبھا تھا کبھی دل میں میرے
دل کو ہر بار اسی خار پہ رکھ دیتا ہوں

روز اک خواہشِ نو لے کے نکلتا ہوں مگر
پھر سلگتے ہوئے انبار پہ رکھ دیتا ہوں

حاکمِ شہر ہے اس بات پہ نالاں مجھ سے
میں جھکاتا نہیں سر، دار پہ رکھ دیتا ہوں

روز بِکتا ہوں ضرورت کے عوض میں اختر
اور قیمت بھی خریدار پہ رکھ دیتا ہوں

اختر عبدالرزاق
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ ! اور بہت شکریہ
قبلہ آپ کی بدولت ریستوران میں اختر عبد الرزاق اور دیگر شعرا کے ساتھ گزاری وہ شام یاد آ گئی جس میں ان کی زبانی یہ غزل سننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔
کمال شاعر ہیں جناب اختر صاحب۔ میرا سلام عرض کیجیے گا۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ فاتح صاحب، میں سلام عرض کردوں گا آج پھر وہیں جا رہے ہیں ہم ۔ آپ کو یاد کریں گے
 

آبی ٹوکول

محفلین
ہر قدم اک نئے آزار پہ رکھ دیتا ہوں
خار سے بچتا ہوں انگار پہ رکھ دیتا ہوں
حاکمِ شہر ہے اس بات پہ نالاں مجھ سے
میں جھکاتا نہیں سر، دار پہ رکھ دیتا ہوں
روز بِکتا ہوں ضرورت کے عوض میں اختر
اور قیمت بھی خریدار پہ رکھ دیتا ہوں
 

محمداحمد

لائبریرین
مغل بھیا

خوش رہیے!

شاد و آباد رہیے!

اس قدر خوبصورت غزل ہے کہ اسے سراہنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

میرا نذرانہ ء تحسین اختر بھائی تک ضرور پہنچا دیجے گا۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ ، ضرور جناب مگر وہ کل ہی رحیم یار خان گئے ہیں ۔ واپس آتے ہی آپ کا پیغام پہنچا دیا جائے گا۔
 
Top