محمد ریحان قریشی
محفلین
لعابِ حواس ہو گیا ہے
ہر لحظہ ہی طاس ہو گیا ہے
افسردہ لباس ہو گیا ہے
اک پیکرِ یاس ہو گیا ہے
کر چاک حریر کو دوانے
فیشن کرپاس ہو گیا ہے
جب سے میں خموش ہو گیا ہوں
وہ حرف شناس ہو گیا ہے
کر دیجے خیال بھی قرنطین
مشغولِ مساس ہو گیا ہے
مختص تھا گلوں کے واسطے جو
وہ وقتِ سپاس ہو گیا ہے
دل کو تو ابھی کیا تھا راضی
کیوں پھر سے اداس ہو گیا ہے
ہر لفظ مری غزل میں ریحان
گویا احساس ہو گیا ہے
ہر لحظہ ہی طاس ہو گیا ہے
افسردہ لباس ہو گیا ہے
اک پیکرِ یاس ہو گیا ہے
کر چاک حریر کو دوانے
فیشن کرپاس ہو گیا ہے
جب سے میں خموش ہو گیا ہوں
وہ حرف شناس ہو گیا ہے
کر دیجے خیال بھی قرنطین
مشغولِ مساس ہو گیا ہے
مختص تھا گلوں کے واسطے جو
وہ وقتِ سپاس ہو گیا ہے
دل کو تو ابھی کیا تھا راضی
کیوں پھر سے اداس ہو گیا ہے
ہر لفظ مری غزل میں ریحان
گویا احساس ہو گیا ہے