ہر لمحہ سر پر منڈلاتی رہتی ہے

عظیم

محفلین
میری ایک غزل بابا سے اصلاح اور اجازت لینے کے بعد۔


ہر لمحہ سر پر منڈلاتی رہتی ہے
موت مجھے کچھ یاد سی آتی رہتی ہے

جب بھی کسی معزور پہ نظریں پڑ جائیں
ناشکری اس جان کو کھاتی رہتی ہے

میں مایوس ہوا ہوں کتنی بار مگر
رب کی رحمت آس دلاتی رہتی ہے

جتنا بھی سرکش ہو جاوں، کفر کروں
سانس ہے آنی، سانس تو آتی رہتی ہے

پھیکی لگتی ہے یہ دنیا اور کبھی
کیسے کیسے رنگ دکھاتی رہتی ہے

ایک آواز سی ہے جو کوسوں دور سے بھی
مجھ کو صبح و شام بلاتی رہتی ہے

کچھ کرنے کی کچھ بن جانے کی ہے لگن
جو مجھ کو دن رات ستاتی رہتی ہے



 
Top