کاشفی
محفلین
غزل
(عبدالعزیز فطرت)
ہر چند بستہ چشم رہا بستہ لب رہا
میں مدتوں نشانہء تیرِ غضب رہا
غیروں پہ لطف کا بھی بتایا گیا جواز
مجھ پر ترا ستم بھی مگر بے سبب رہا
تونے جو کچھ دیا وہ دیا لطفِ خاص سے
پابندِ آستیں مِرا دستِ طلب رہا
اس بزم میںنگاہ پہ قابو نہ رکھ سکا
ہاں مجھ کو اعتراف ہے میںبے ادب رہا
سو بار تیرے غم نے دکھائی رہِ فنا
سو بار تیری یاد میں مَیں جاں بلب رہا
دل کی فسردگی نے یہ مجھ پر ستم کیا
میں وقفِ انتظارِ اجل روز و شب رہا
فطرت رموز شوق نہ کہہ گریہ کوش رہ
"سب(1) کچھ کہا اُسی نے جو یاں بستہ لب رہا"
(1) - شاد عظیم آبادی