عمر سیف
محفلین
غزل
ہر کسی سے نہ دل لگایا کر
میں جو کہتا ہوں مان جایا کر
دن چڑھے مجھ کو یاد کر لے تُو
شام ہوتے ہی بھول جایا کر
میری ہر بات بھول کر جاناں
اپنی باتیں مجھے سنایا کر
رنگ بھر دے تمام پھولوں میں
میری جاں اور مسکرایا کر
روز آنکھیں بچھا کے بیٹھ کہیں
پھر سرِ شام لوٹ جایا کر
مجھ سے گر فاصلے بڑھانے ہیں
تو مجھے یاد بھی نہ آیا کر
عمر اس شہر کے اندھیرے میں
دیپ چاہت کے تو جلایا کر
عمر سیف
ہر کسی سے نہ دل لگایا کر
میں جو کہتا ہوں مان جایا کر
دن چڑھے مجھ کو یاد کر لے تُو
شام ہوتے ہی بھول جایا کر
میری ہر بات بھول کر جاناں
اپنی باتیں مجھے سنایا کر
رنگ بھر دے تمام پھولوں میں
میری جاں اور مسکرایا کر
روز آنکھیں بچھا کے بیٹھ کہیں
پھر سرِ شام لوٹ جایا کر
مجھ سے گر فاصلے بڑھانے ہیں
تو مجھے یاد بھی نہ آیا کر
عمر اس شہر کے اندھیرے میں
دیپ چاہت کے تو جلایا کر
عمر سیف