ایک مزید غزل، ملاحظہ فرمائیں اور براہ مہربانی اپنی رائے سے نوازیں
ہر کسی سے نبھانی پڑتی ہے
عشق میں یوں بتانی پڑتی ہے
کیا محبت کا کھیل سہل ہے کیا
اپنی درگت بنانی پڑتی ہے
اس کے بارے میں جاننے کے لیے
ساری دنیا بھلانی پڑتی ہے
آنکھیں کھلتی ہیں تب کہیں جا کر
دل پہ اک چوٹ کھانی پڑتی ہے
یوں ہی آتی نہیں بزرگی بھی
راستے میں جوانی پڑتی ہے
راحتیں ڈھونڈتے ہیں جو سن لیں
سخت اذیت اٹھانی پڑتی ہے
اس کی گلیوں میں اک گزر کے لیے
خاک اپنی اڑانی پڑتی ہے
کہنا آساں ہے یہ کہ عشق میں ہوں
جان لیکن گنوانی پڑتی ہے
ورنہ رہتا ہے گھپ اندھیرا سدا
اپنی پہچان لانی پڑتی ہے
ہیں مقدر کے شاہ جن کے سر
اک بلا آسمانی پڑتی ہے
ہر کسی سے نبھانی پڑتی ہے
عشق میں یوں بتانی پڑتی ہے
کیا محبت کا کھیل سہل ہے کیا
اپنی درگت بنانی پڑتی ہے
اس کے بارے میں جاننے کے لیے
ساری دنیا بھلانی پڑتی ہے
آنکھیں کھلتی ہیں تب کہیں جا کر
دل پہ اک چوٹ کھانی پڑتی ہے
یوں ہی آتی نہیں بزرگی بھی
راستے میں جوانی پڑتی ہے
راحتیں ڈھونڈتے ہیں جو سن لیں
سخت اذیت اٹھانی پڑتی ہے
اس کی گلیوں میں اک گزر کے لیے
خاک اپنی اڑانی پڑتی ہے
کہنا آساں ہے یہ کہ عشق میں ہوں
جان لیکن گنوانی پڑتی ہے
ورنہ رہتا ہے گھپ اندھیرا سدا
اپنی پہچان لانی پڑتی ہے
ہیں مقدر کے شاہ جن کے سر
اک بلا آسمانی پڑتی ہے