عاطف ملک
محفلین
خوں رلاتی تری فرقت ہے مجھے
ہر گھڑی گویا اذیت ہے مجھے
دکھ ہیں، رنجوری ہے، کلفت ہے مجھے
زیست کرنا بھی صعوبت ہے مجھے
دل کہ خوشیوں بھری جنت تھا کبھی
آج اک قریۂِ وحشت ہے مجھے
راہِ الفت میں وہ آیا ہے مقام
ہر نیا درد بھی راحت ہے مجھے
چھوڑ کر تجھ کو چلا جاتا مگر
کیا کروں تجھ سے محبت ہے مجھے
جس تعلق پہ میں نازاں تھا کبھی
آج اس پر ہی ندامت ہے مجھے
گر یہی سب ہے محبت کا صلہ
کیا عداوت کی اجازت ہے مجھے
اس کی قربت بھی الگ الجھن تھی
اور دوری تو قیامت ہے مجھے
جن سے امید نہ رکھی تھی کبھی
آج کیوں ان سے شکایت ہے مجھے
وہ مرا ہو نہ سکا، صد افسوس!
میں اسی کا ہوں غنیمت ہے مجھے
روز کرتا ہوں میں خود سے یہ سوال
ان سے کیا اب بھی محبت ہے مجھے
کیسے کہہ دوں میں اسے یہ عاطفؔ
صرف تیری ہی ضرورت ہے مجھے
عاطفؔ ملک
اکتوبر ۲۰۲۱
ہر گھڑی گویا اذیت ہے مجھے
دکھ ہیں، رنجوری ہے، کلفت ہے مجھے
زیست کرنا بھی صعوبت ہے مجھے
دل کہ خوشیوں بھری جنت تھا کبھی
آج اک قریۂِ وحشت ہے مجھے
راہِ الفت میں وہ آیا ہے مقام
ہر نیا درد بھی راحت ہے مجھے
چھوڑ کر تجھ کو چلا جاتا مگر
کیا کروں تجھ سے محبت ہے مجھے
جس تعلق پہ میں نازاں تھا کبھی
آج اس پر ہی ندامت ہے مجھے
گر یہی سب ہے محبت کا صلہ
کیا عداوت کی اجازت ہے مجھے
اس کی قربت بھی الگ الجھن تھی
اور دوری تو قیامت ہے مجھے
جن سے امید نہ رکھی تھی کبھی
آج کیوں ان سے شکایت ہے مجھے
وہ مرا ہو نہ سکا، صد افسوس!
میں اسی کا ہوں غنیمت ہے مجھے
روز کرتا ہوں میں خود سے یہ سوال
ان سے کیا اب بھی محبت ہے مجھے
کیسے کہہ دوں میں اسے یہ عاطفؔ
صرف تیری ہی ضرورت ہے مجھے
عاطفؔ ملک
اکتوبر ۲۰۲۱