ہر گھڑی ہم نے بپا دیکھا ہے محشر اپنا

طالش طور

محفلین
کس قدر خوب زیاں میں تھا مقدر اپنا
جب نقب زن کہیں آئے تو لٹا گھر اپنا

ہے عجب خاصۂِ بازارِ محبت کے جہاں
بیچ دیتی ہے تجارت ہی سوداگر اپنا

جب بھی احساس ہمیں دار پہ لایا تو وہاں
ہم نے دیکھا ہے ندامت میں کٹا سر اپنا

اجنبیت ہی ملی رونقِ محفل میں ہمیں
پھول اپنا تھا وہاں کوئی ، نہ پتھر اپنا

ہم تو اک عمر سے مائل بہ کرم بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو سہی ہم کو سمجھ کر اپنا

وقتِ رخصت ہمیں اس نے نہ پلٹ کر دیکھا
ہاتھ لہراتے رہے ہم تو برابر اپنا

خود ہی مجرم ہیں جو ہر بار مرے شہر کے لوگ
رہزنوں کو ہی بنا لیتے ہیں رہبر اپنا

اپنی سوچوں میں عجب شور اٹھے ہے طالش
ہر گھڑی ہم نے بپا دیکھا ہے محشر اپنا

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
یاسر شاہ
ایس ایس ساگر
 

الف عین

لائبریرین
کس قدر خوب زیاں میں تھا مقدر اپنا
جب نقب زن کہیں آئے تو لٹا گھر اپنا
.. کس قدر خوب... تو خوشی کا مثبت اظہار ہے! دوسرا مصرع واضح نہیں

ہے عجب خاصۂِ بازارِ محبت کے جہاں
بیچ دیتی ہے تجارت ہی سوداگر اپنا
.. سوداگر کی و کا اسقاط غلط ہے

اجنبیت ہی ملی رونقِ محفل میں ہمیں
.. رونق میں ملنا محاورے کے خلاف ہے
محفل اجنبی سی لگی یا محفل میں اجنبیت سی محسوس ہوئی قسم کا خیال نظم کریں
باقی اشعار درست ہیں
 

طالش طور

محفلین
کس قدر خوب زیاں میں تھا مقدر اپنا
جب نقب زن کہیں آئے تو لٹا گھر اپنا
.. کس قدر خوب... تو خوشی کا مثبت اظہار ہے! دوسرا مصرع واضح نہیں

ہے عجب خاصۂِ بازارِ محبت کے جہاں
بیچ دیتی ہے تجارت ہی سوداگر اپنا
.. سوداگر کی و کا اسقاط غلط ہے

اجنبیت ہی ملی رونقِ محفل میں ہمیں
.. رونق میں ملنا محاورے کے خلاف ہے
محفل اجنبی سی لگی یا محفل میں اجنبیت سی محسوس ہوئی قسم کا خیال نظم کریں
باقی اشعار درست ہیں
نہ ٹھکانہ ہے جہاں میں نہ کوئی گھر اپنا
اب تو ہے گردشِ بےسود مقدر اپنا

اجنبیت ہی ملی ہر کسی محفل میں ہمیں
پھول اپنا تھا وہاں کوئی , نہ پتھر اپنا

ہے عجب خاصۂٗ بازارِ محبت کے جہاں
کاسۂٗ جاں بھی لٹاتے ہیں گداگر اپنا

سر نظر ثانی فرما دیں
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم طالش بھائی ان اشعار کو انتخاب کر لیں ۔غزل اچھی ہے۔

نہ ٹھکانہ ہے جہاں میں نہ کوئی گھر اپنا
اب تو ہے گردشِ بےسود مقدر اپنا

اجنبیت ہی ملی ہر کسی محفل میں ہمیں
پھول اپنا تھا وہاں کوئی , نہ پتھر اپنا

ہے عجب خاصۂٗ بازارِ محبت کہ جہاں
کاسۂٗ جاں بھی لٹاتے ہیں گداگر اپنا

ہم تو اک عمر سے مائل بہ کرم بیٹھے ہیں
کوئی آئے تو سہی ہم کو سمجھ کر اپنا

وقتِ رخصت ہمیں اس نے نہ پلٹ کر دیکھا
ہاتھ لہراتے رہے ہم تو برابر اپنا

خود ہی مجرم ہیں جو ہر بار مرے شہر کے لوگ
رہزنوں کو ہی بنا لیتے ہیں رہبر اپنا

اپنی سوچوں میں عجب شور اٹھا ہے طالش
ہر گھڑی ہم نے بپا دیکھا ہے محشر اپنا
 
Top