طارق شاہ
محفلین
غزل
اکبؔر الہٰ آبادی
ہستیٔ حق کے معانی جو مِرا دِل سمجھا
اپنی ہستی کو اِک اندیشۂ باطِل سمجھا
وہ شناوَر ہُوں جو ہر مَوج کو ساحِل سمجھا
وہ مُسافِر ہُوں، جو ہر گام کو منزِل سمجھا
حضْرتِ دِل کو چڑھا آیا مَیں، بُتخانے میں
اُن کے انداز سے، اُن کو اِسی قابِل سمجھا
ہُوئی دُنیا میں مِرے جوشِ جُنوں کی تکریم
تیرے دِیوانے کو، عاقِل نے بھی کامِل سمجھا
کافری سَہْل نہ تھی، عِشقِ بُتاں کھیل نہ تھا
بہ خُدا میَں تو اِسی سے، اُسے مُشکِل سمجھا
اُن نگاہوں کے اِشاروں سے طبیعت تڑپی
اُن اشاروں کے معانی کو، مِرا دِل سمجھا
ضُعف سے مَیں جو گھٹا، اور بڑھا اُس کا سِتَم
یاں زباں ہِل نہ سَکی، وہ مُتَحمِّل سمجھا
اُترا دریا میں پئے غُسل جو وہ غیرتِ گُل!
شورِ امواج کو، مَیں شورِ عنادِل سمجھا
کُفر و اِسلام کی تفرِیق نہیں فِطرَت میں
یہ وہ نُکتہ ہے، جِسے مَیں بھی بہ مُشکِل سمجھا
شیخ نے چَشْمِ حَقارَت سے جو دیکھامُُجھ کو
بہ خُدا! مَیں اُسے اللّٰہ سے غافِل سمجھا
حُسن نے ناز کئے، عِشق کی تکمِیل ہُوئی
نہ نظر آپ کی سمجھی، نہ مِرا دِل سمجھا
آپ دیکھیں مُجھے، اور مَیں نہ کرُوں یادِ خُدا
موت سے آپ نے ایسا مُجھے غافِل سمجھا
وہ بھی نافہْم ہے، جو خِضْر کا طالِب نہ ہُوا
وہ بھی نادان ہے جو خِضْر کو منزِل سمجھا
نہ کِیا یار نے اکبؔر کے جُنوں کو تسلِیم!
مِل گئی آنکھ، تو کُچھ سوچ کے عاقِل سمجھا
اکبؔر الہٰ آبادی
اکبؔر الہٰ آبادی
ہستیٔ حق کے معانی جو مِرا دِل سمجھا
اپنی ہستی کو اِک اندیشۂ باطِل سمجھا
وہ شناوَر ہُوں جو ہر مَوج کو ساحِل سمجھا
وہ مُسافِر ہُوں، جو ہر گام کو منزِل سمجھا
حضْرتِ دِل کو چڑھا آیا مَیں، بُتخانے میں
اُن کے انداز سے، اُن کو اِسی قابِل سمجھا
ہُوئی دُنیا میں مِرے جوشِ جُنوں کی تکریم
تیرے دِیوانے کو، عاقِل نے بھی کامِل سمجھا
کافری سَہْل نہ تھی، عِشقِ بُتاں کھیل نہ تھا
بہ خُدا میَں تو اِسی سے، اُسے مُشکِل سمجھا
اُن نگاہوں کے اِشاروں سے طبیعت تڑپی
اُن اشاروں کے معانی کو، مِرا دِل سمجھا
ضُعف سے مَیں جو گھٹا، اور بڑھا اُس کا سِتَم
یاں زباں ہِل نہ سَکی، وہ مُتَحمِّل سمجھا
اُترا دریا میں پئے غُسل جو وہ غیرتِ گُل!
شورِ امواج کو، مَیں شورِ عنادِل سمجھا
کُفر و اِسلام کی تفرِیق نہیں فِطرَت میں
یہ وہ نُکتہ ہے، جِسے مَیں بھی بہ مُشکِل سمجھا
شیخ نے چَشْمِ حَقارَت سے جو دیکھامُُجھ کو
بہ خُدا! مَیں اُسے اللّٰہ سے غافِل سمجھا
حُسن نے ناز کئے، عِشق کی تکمِیل ہُوئی
نہ نظر آپ کی سمجھی، نہ مِرا دِل سمجھا
آپ دیکھیں مُجھے، اور مَیں نہ کرُوں یادِ خُدا
موت سے آپ نے ایسا مُجھے غافِل سمجھا
وہ بھی نافہْم ہے، جو خِضْر کا طالِب نہ ہُوا
وہ بھی نادان ہے جو خِضْر کو منزِل سمجھا
نہ کِیا یار نے اکبؔر کے جُنوں کو تسلِیم!
مِل گئی آنکھ، تو کُچھ سوچ کے عاقِل سمجھا
اکبؔر الہٰ آبادی
آخری تدوین: