ہفتۂ شعر و ادب۔۔ ساقی فاروقی

الف عین

لائبریرین
پیش ہیں ساقی فاروقی کی کافی معروف غزلیں
پیاس کا صحرا
سے

پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا

میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا

ایک چہرہ ہے کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا

میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا

ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آئی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا

میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا

میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا

جان پیاری تھی مگر جان سے بیزاری تھی
جان کا کام فقط جان فروشی نکلا

خاک میں اس کی جدائ میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا

اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا

وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا

میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چُنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہرِ معانی نکلا

میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا، وہ بھی سوالی نکلا

میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا

صرف حشمت کی طلب، جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا، جذامی نکلا

اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا
 

الف عین

لائبریرین
یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
شبِ سیاہ میں اک چشمِ مار میں بھی تھا

بہت سے لوگ تھے سقراط کار و عیسیٰ نفس
اسی ہجوم میں اک بے شمار میں بھی تھا

یہ چاند تارے مرے گرد رقص کرتے تھے
لکھا ہوا ہے زمیں کا مدار میں بھی تھا

سنا ہے زندہ ہوں، حرص و ہوس کا بندہ ہوں
ہزار پہلے محبت گزار میں بھی تھا

جو میرے اشک تھے برگ خزاں کی طرح گرے
برس کے کھُل گیا، ابرِ بہار میں بھی تھا

مجھے سمجھنے کی کوشش نہ کی زمانے نے
یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا

سپردگی میں نہ دیکھی تھی تمکنت ایسی
یہ رنج ہے کہ انا کا شکار میں بھی تھا

مجھے عزیز تھا ہر ڈوبتا ہوا منظر
غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا

مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دیندار میں بھی تھا

برائے درس اب اطفالِ شہر آتے ہیں
حرام کارِ غنا و قمار میں تھا

میں کیا بھلا تھا یہ دنیا اگر کمینی تھی
درِ کمینگی پر چوبدار میں بھی تھا

وہ آسمانی بلا لوٹ کر نہیں آئ
اسی زمین پہ امید وار میں بھی تھا
 

الف عین

لائبریرین
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مر جائیں گے اک دن
اک رات کے راہی ہیں، گزر جائیں گے اک دن

یوں دل میں اٹھی لہر، یوں آنکھوں میں بھرے رنگ
جیسے مرے حالات سنور جائیں گے اک دن

دل آج بھی جلتا ہے اسی تیز ہوا میں
اے تیز ہوا دیکھ، بکھر جائیں گے اک دن

یوں ہے کہ تعاقب میں ہے آسائشِ دنیا
یوں ہے کہ محبت سے مُکر جائیں گے اک دن

یوں ہوگا کہ ان آنکھوں سے آنسو نہ بہیں گے
یہ چاند ستارے بھی ٹھہر جائیں گے اک دن

اب گھر بھی نہیں، گھر کی تمنّا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
 

الف عین

لائبریرین
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں، انہیں جگا دوں گا
میں آنسوؤں کو ہمیشہ ترا پتہ دوں گا

بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ خاک بھی اُڑا دوں گا

ہوا ہے تیز، مگر اپنا دل نہ میلا کر
میں اس ہوا میں تجھے دور تک صدا دوں گا

مری صدا پہ نہ برسیں اگر تری آنکھیں
تو حرف و صوت کے سارے دئے بجھا دوں گا

جو اہلِ ہجر میں ہوتی ہے ایک دید کی رسم
تری تلاش میں وہ رسم بھی اٹھا دوں گا

وہ ایک لمحہ جسے کھو دیا محبت نے
اسے تلاش کروں گا، تجھے بھُلا دوں گا

وہ لفظ ہاتھ نے لکھے ہیں جو نہ لکھنے تھے
میں اس خطا پہ اسے عمر بھر سزا دوں گا
 

الف عین

لائبریرین
درد پرانا آنسو مانگے۔ آنسو کہاں سے لاؤں
روح میں ایسی کونپل پھوٹی میں کمھلاتا جاؤں

میرے اندر بیٹھا کوئ میری ہنسی اڑائے
ایک پلک کو اندر جاؤں ، باہر بھاگا آؤں

سارے موتی جھوٹے نکلے، سارے جادو ٹونے
میری خالی آنکھو بولو، اب کیا خواب سجاؤں

میرا کیسے کام چلے جب نام سے کرن نہ پھوٹے
اب کیا جینے پر اتراؤں، اب کیا نام کماؤں

اب بھی راکھ کے ڈھیر کے نیچے سسک رہی چنگاری
اب بھی کوئی جتن کرے تو جوالا مکھی بن جاؤں
 
Top