الف عین
لائبریرین
پیش ہیں ساقی فاروقی کی کافی معروف غزلیں
پیاس کا صحرا
سے
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا
ایک چہرہ ہے کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا
میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا
ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آئی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا
میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا
میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا
جان پیاری تھی مگر جان سے بیزاری تھی
جان کا کام فقط جان فروشی نکلا
خاک میں اس کی جدائ میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چُنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہرِ معانی نکلا
میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا، وہ بھی سوالی نکلا
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
صرف حشمت کی طلب، جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا، جذامی نکلا
اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا
پیاس کا صحرا
سے
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا
ایک چہرہ ہے کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا
میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی
اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا
ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آئی ہے
ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا
میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں
وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا
میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی
بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا
جان پیاری تھی مگر جان سے بیزاری تھی
جان کا کام فقط جان فروشی نکلا
خاک میں اس کی جدائ میں پریشان پھروں
جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا
اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے
یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا
وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے
جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا
میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چُنتا ہے
میری آنکھوں کا کھنڈر شہرِ معانی نکلا
میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے
وہ بھی محتاج ملا، وہ بھی سوالی نکلا
میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں
اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا
صرف حشمت کی طلب، جاہ کی خواہش پائی
دل کو بے داغ سمجھتا تھا، جذامی نکلا
اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں
اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا