ہلال سیرت النبی نمبر

الف نظامی

لائبریرین
فہرست​
الفاتحہ
احساس کا ورد
صراط مستقیم
سلامِ رضا از شاہ احمد رضا خاں
رفعتِ شان از علامہ اقبال
آوازِ دل از مولانا ظفر علی خان
آس عاصیاں از عبدالستارخان نیازی
نویدِ نجات از محمد بن نبانہ مصری
شمع بزم ہدایت
جانِ جہاں از پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی
معلم اخلاق از میجر جنرل خالد لطیف مغل
سرکار کی رحمتیں از برگیڈئر فاروق احمد
جانِ جاناں از پروفیسر مسعود احمد
کامیاب زندگی از کرنل نعیم آفریدی
رہبرِ کامل از لیفٹنٹ کرنل سید نواب عالم
تشریف آوری سے پہلے از قاضی منظور الحسنین رضوی
محسنِ انسانیت از سید شکیل احمد
فخر کائنات از میاں محمد شفیع
قائدِ جیش نصرت
جہاد کی برکتیں
ذوقِ جہاد اور شوقِ شہادت از میجر جنرل امیر حمزہ
عسکریوں کی کامیابی از میجر جنرل جاوید ناصر
غزوات النبی اور ملٹری انٹیلیجنس از بریگیڈئر گلزار احمد
معائدہ حدیبہ کی فوجی اہمیت از بریگیڈئر اعجاز قدیر
بے خوف سپہ سالار از ائر کموڈور محمود حسن
رحمۃ للعالمین میدانِ جنگ میں از کرنل سید مختار حسین گیلانی
سپاہیوں کا نذرانہ از ونگ کمانڈر رحمان کیانی
سرورِ عالم کا عسکری امتیاز از لیفٹنٹ جنرل غلام جیلانی
ہجرتِ نبوی کا فوجی جائزہ از میجر امیر افضل خان
حضور پاک کے تربیت یافتہ مجاہد از میجر صالح نصر سعدی گیلانی
حیاتِ نبی کا عسکری پہلو از کیپٹن سہیل عامر خان
بحریہ حضور پاک کی نظر میں از لیفٹنٹ ادریس ملک
نوبہارِ شفاعت
کی محمد سے وفا تو نے تو از جسٹس اے ایس سلام
مشکل کشا جسٹس محمد الیاس
نبی رحمت سے محبت از ریر ایڈمرل ایم اے خان
حبِ رسول کریم از ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی
اقبال اور حبِ رسول مقبول از شاہ مصباح الدین شکیل
امت کا تحفہ از لیفٹنٹ کرنل اقبال احمد
ایمان افروز واقعات از خطیب نور الحق حمیدی
محبت کےتقاضے از عصمت شاہین بٹ
ختم دورِ رسالت
ختم نبوت از مظہر پورنوی
اللہ کے آخری نبی از ائر کموڈور محمد سلیم خان
نزولِ عیسی اور ختم نبوت از محمد یوسف لدھیانوی
جنگِ یمامہ از الطاف علی قریشی
بزبانِ رسول مقبول از لیفٹنٹ کمانڈر صابر قریشی
کوئی ان کے بعد نبی ہوا؟ از حنیف الاسعدی
چشمہ علم وحکمت
پیارے نبی کی پیاری زندگی
تعمیر اخلاق از پروفیسر محمد منور
سیرت النبی کا پیغام از پروفیسر غازی احمد
سیرتِ طیبہ از ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
اسلامی تہذیب از محمد اسلم
مثالی زندگی از میجر ڈاکٹر رفیق غنچہ
سبق آموز رویے از لیفٹنٹ شاہد اقبال
مستورات پر احسانات از نفیس اقبال
شہر بحر سخاوت​
بارگاہِ مصطفی میں مولانا رفیع الدین مراد آبادی، سرمحمد صادق خامس عباسی، قدرت اللہ شہاب، نسیم حجازی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، مولانا ابوالقلم خاموش ، سلطان داودی، پیر محمد کرم شاہ الازہری
عجائباتِ معراج النبی از حضرت عبداللہ بن عباس
درِ نبی پر از فلائٹ لیفٹنٹ شفیق الرحمن
جب خوابوں میں سرکار ملے از اعجاز احمد فاروقی
سرکار کی پیش گوئیاں از مونس زبیری
بے مثال استقبال از سعید بدر
ترکوں کی محبت از صلاح الدین محمود

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمد للہ رب العالمین۔ الرحمن الرحیم ۔ملک یوم الدین۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم، غیر المغضوب علیھم ولاالضآلین۔
کروں نام اللہ سے ابتدا
جو ہے رحم و بخشش میں سب سے بڑا​
خدا کو ہی زیبا ہیں سب خوبیاں
جو ہے ایک پروردگارِ جہاں​
عدالت کے دن کا ہے مالک وہی
جو دے گا جزا سب کو اعمال کی​
تری بندگی کرتے ہیں اے خدا
تجھی سے مدد مانگتے ہیں سدا​
دکھا ہم کو یارب رہِ مستقیم
ہمیں راہِ حق پہ چلا اے کریم​
تو ان پاک لوگوں کا رستہ دکھا
کہ جن پر سدا فضل تیرا ہوا​
نہ ان کی ، ہوا جن پہ نازل غضب
نہ گمراہوں کی رہ دکھا میرے رب​
ہماری دعا کر قبول اے خدا
تیرے بن نہیں کوئی سنتا دعا​

احساس کا ورد​
یہ چودہ صدیاں پہلے کی بات نہیں
سرکار کی بے کس نوازیاں تو آج بھی خزاں رسیدہ زندگی میں بہاریں لا رہی ہیں
وقتِ مشکل جس نے بھی ، جب بھی ، جہاں بھی اور جیسے ہی " نگاہے یارسول اللہ نگاہے" کی صدا دی
اسے موجِ کرم نظر آئی ، اس نور کی صورت میں جو مصیبت کے اندھیروں کا رخ پھیر دیتا ہے مگر گناہ گار سے رخ نہیں پھیرتا کہ اس کے بارے میں ہے ارشاد کہ یہ اپنا ہے
اپنا بنانا ، امتی امتی کہنا اور ہمیں کہنا! ۔۔۔۔۔ یہ کرم ان کا ، ہم کس قابل!!
سبحان اللہ ! رب جلیل نے ہم پر کیسا احساں فرمایا
وہ پریشان حالوں اور غم نصیبوں کے احساس کے راز داں ہیں
تدبیریں کمزور اور تعزیریں منہ زور ہوجائیں، جب مرض لاعلاج ہو جائیں اور ہمتیں جواب دیں جائیں ، تو ان کی نظرِ کرم کی کمک پاسہ پلٹ دیتی ہے۔ پھر شکستوں کو فتح ، بیماروں کو صحت اور ناکامیوں کو کامرانی کا عنوان مل جاتا ہے۔
یہ ذکر خیر ہے جنابِ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جو سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔
جو یاد کی صورت بے بسوں کے دل میں بس رہے ہیں۔۔۔۔ انشا اللہ تعالی اس یاد کی قوت بے بسوں کو یہاں کسی بھی محاذ ، آزمائش ، امتحان یا مقابلے میں سرنگوں نہ ہونے دے گی۔
اور یہ ذکرِ پاک ہے جنابِ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا
جن کی رحمت کا سایہ وہاں کے کٹھن سفر میں ہمارا زادِ راہ ہوگا
جن کی شفاعت کے نور سے ہمارے گناہوں کی سیاہی دھل جائے گی
اور پھر ہم وہاں بھی کامیاب ٹھہریں گے اور سربلند بھی
فرشتوں کی قطاریں کہیں گی کہ بڑے خوش نصیب یہ لوگ ہیں
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی اس احسانِ عظیم پر رب تعالی کے حضور سراپا شکر و عجز کھڑے ہیں ، ان کے عجز کا احساس ، احساس کی دھڑکن اور دھڑکن کی زبان زبانِ حال سے ورد کر رہی ہے
اور آسمانوں پر فرشتوں کو بھی یہ ورد سنائی دے رہا ہے کہ
بخشوائیں گے وہ اس گنہگار کو
ان کے ذوقِ شفاعت پہ لاکھوں سلام​
سلامِ رضا​
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام​
فتح یاب نبوت پہ بے حد درود
ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام​
خلق کے داد رس سب کے فریاد رس
کہف روزِ مصیبت پہ لاکھوں سلام​
مجھ سے بے کس کی دولت پہ لاکھوں درود
مجھ سے بے بس کی قوت پہ لاکھوں سلام​
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام​
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام​
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھنوں کی لطافت پہ لاکھوں سلام​
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام​
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام​
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام​
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا
موج بحر سخاوت پہ لاکھوں سلام​
جس کو بارِ دوعالم کہ پروا نہیں
ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام​
کھائی قرآن نے خاکِ گذر کی قسم
اس کفِ پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام​
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​
بھینی بھینی مہک پر مہکتی درود
پیاری پیاری نفاست پہ لاکھوں سلام​
میٹھی میٹھی عبادت پہ شیریں درود
اچھی اچھی اشارت پہ لاکھوں سلام​
الغرض ان کے ہر مو پہ لاکھوں سلام
ان کے ہر وقت و حالت پہ لاکھوں سلام​
ان کے مولا کے ان پہ کروڑوں درود
ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام​
کاش محشر میں جب ان کی آمد ہو اور
بھیجیں سب ان کی شوکت پہ لاکھوں سلام​
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام​

صراط مستقیم​
درود و صلواۃ و سلام
فخر دوعالم سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعزاز و اکرام ، عظمت اور شان کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اللہ جل شانہ خود حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجے ، اس کے فرشتے بھی درود بھیجیں اور مسلمانوں کو یہ سعادت عطا ہو کہ جو کام اللہ رب العزت خود کرتا ہے انہیں بھی اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا جائے۔ چنانچہ حق سبحانہ و تعالی فرماتا ہے
ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی ، یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔

ترجمہ "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو" ( سورہ الاحزاب 56)
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم نہ صرف زبان سے درود پڑھنے پر مبنی ہے بلکہ اس کے جلو میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوصاف جمیلہ کی تعریف ، توصیف اور ذکر سبھی شامل ہے اور سب ہی باعث ہزار رحمت ہے۔
درود شریف کی فضیلت کے متعلق چند احادیث کا ذکر تازگی ایمان کا موجب ہوگا۔
فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجتا ہو۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں آپ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ بتائیں کہ میں اپنے اعمال اور اوراد میں سے اس کے لئے کتنا وقت مقرر کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس قدر تو چاہے، اگر زیادہ کرے گا تو تیرے لئے بہتر ہوگا ۔ میں نے کہا آدھا وقت مقرر کروں ۔ فرمایا جس قدر تو چاہے ۔۔اگر زیادہ کرے گا تو تیرے لئے بہتر ہوگا ۔ میں نے کہا دو تہائی وقت مقرر کردوں ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس قدر تو چاہے اگر زیادہ کرے گا تو تیرے لئے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی دعا کا سارا وقت مقرر کردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ کفایت کرے گا ور تیرے دین و دنیا کے مقاصد پورا کرے گا اور تیرے گناہ دور کیے جائیں گے۔ ( ترمذی ، مشکوۃ شریف )
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجنا گناہوں کے دھونے اور اس سے پاک کرنے میں آگ کو سرد پانی سے بجھانے سے زیادہ موثر اور کارآمد ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجنا غلاموں کو آزاد کرانے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے"۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "جب تک تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود نہ بھیجو گے تب تک تمہاری دعا آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی رہے گی ، ذرا بھی اوپر نہیں چڑھے گی ( ترمذی شریف )
حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا ( بارگاہِ الہی تک پہنچنے سے ) رکی رہتی ہے یہاں تک کہ دعا کرنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آل ( اہل و عیال ) پر درود بھیجتا ہے" ۔ اسی لیے تو بزرگوں نے دعا کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے کہ شروع اور آخر میں درود شریف پڑھ کر دعا مانگنی چاہیے ، شیخ ابوسلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ و عبد الرحمن شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا " جب تم اللہ تعالی سے کسی حاجت کی دعا مانگو تو اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود وسلام بھیجو ، پھر جو چاہتے ہو دعا مانگو اور آخر میں پھر درود وسلام بھیجو ۔ اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالی حسبِ وعدہ اپنے کرم سے ان دونوں درودوں کو تو قبول فرمائیں گے ہی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ان کے درمیان کی دعا کو چھوڑ دیں اور قبول نہ فرمائیں"
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "جو شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایک بار درود بھیجتا ہے ، اللہ سبحانہ اور ملائکہ اس پر ستر مرتبہ درود بھیجتے ہیں ۔" حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو شخص مجھ پر ہزار بار درود بھیجے ، نہ مرے گا جب تک اپنی جگہ جنت میں نہ دیکھ لے ( بخاری و مسلم )
درود شریف رحمت و کرم کی دعا ہے جو اگرچہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے کی جاتی ہے، لیکن اس کے صدقے میں خود اس کے پڑھنے والے کو رحمتوں سے نوازا جاتا ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے اور اس محبت پر شاہد جو اللہ کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہے۔ ظاہر ہے کہ درود شریف کے ہر پڑھنے والے کی اپنے لیے کچھ خاص دعا بارگاہ العزت میں ہوتی ہے ۔ ہر درود پڑھنے والے کی دعا ، تمنا اپنے لیے الگ الگ ہوتی ہے جو بسا اوقات درود شریف کے ورد سے پوری ہوتی ہے اس لیے درود شریف کے جس قدر فضائل بھی لکھے جائیں وہ کم ہوں گے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے مدارج النبوت اور علامہ شمس الدین سخاوی نے القول البدیع میں ان تمام فضائل درود شریف کو یکجا کیا ہے جو احادیث پاک اور روایاتِ مبارکہ میں مذکور ہیں۔ ذرا دیکھیے تو
حبیبِ خد ا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود پاک پڑھنے والے پر اللہ تعالی درود بھیجتا ہے ۔ ایک کے بدلے ایک نہیں ، بلکہ کم از کم دس۔ اس کے لیے رب تعالی کے فرشتے رحمت اور بخشش کی دعائیں کرتے ہیں، جب بندہ درودِ پاک پڑھتا ہے ، فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں ، درودِ پاک گناہوں کا کفارہ ہے اس پڑھنے سے درجے بلند ہوتے ہیں ، اس سے نیکیوں کا پلڑا وزنی ہوگا ، اس سے عمل پاک ہو جاتے ہیں ، یہ خود اپنے پڑھنے والے کے لیے اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہے ، اس پڑھنے والے کے لیے ایک قیراط ثواب لکھا جاتا ہے جو کہ احد پہاڑ جتنا ہے ، روزِ قیامت اسے عرس الہی کے سائے میں جگہ ملے گی ۔ جو درودِ پاک ہی کو وظیفہ بنائے اس کے دنیا و آخرت کے سارے کام اللہ تعالی خود اپنے ذمہ لے لیتا ہے، اسے پڑھنے والا ہر قسم کے صدموں ، پریشانیوں ، لا علاج بیماریوں سے نجات پاتا ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے ایمان کی گواہی دیں گے ، اسے پڑھنے والے کے لیے شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس کیلیے اللہ تعالی کی رضا و رحمت میں اضافہ اور غضب الہی سے امان لکھ دی جاتی ہے،اس کی پیشانی پر لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ نفاق اور دوزخ سے بری ہے، پل صراط پر سے نہایت آسانی اور تیزی سے گزر جائے گا، موت سے پہلے اپنا مکان جنت میں دیکھ لیتا ہے، درود پاک کی برکت سے مال بڑھتا ہے،اور تنگدستی دور ہوتی ہے، درود پاک جس مرحوم کو پڑھ کر بخشا جائے ، اسے بھی نفع دیتا ہے ، درودِ پاک پڑھنے سے دشمنوں پر فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے ، دل زنگ سے پاک ہو جاتا ہے ، دعا قبول ہوتی ہے ، دل کی صفائی ہوتی ہے ۔ بھولی بسری اور گمشدہ چیزیں مل جاتی ہیں ، درود پاک پڑھنے والے سے لوگ محبت کرتے ہیں ، وہ لوگوں کی غیبت اور تہمتوں سے محفوظ رہتا ہے ، درودِ پاک پڑھنے والے کو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوتی ہے ، ایک بار درود پاک پڑھنے سے دس گناہ معاف ہوتے ہیں ، دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، دس درجے بلند ہوتے ہیں ، دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، درودِ پاک پڑھنے والے کا کندھا جنت کے دروازے پر حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کندھے مبارک کے ساتھ چھو جائے گا ، روزِ قیامت وہ سب سے پہلے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس پہنچے گا۔ اس کے سارے کاموں کے لیے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ذمہ دار ہو جائیں گے۔ درود پاک پڑھنے والے کو وقتِ مرگ آسانی ہوتی ہے۔ جس مجلس میں درودِ پاک پڑھا جائے اس مجلس کو فرشتے رحمت سےگھیر لیتے ہیں۔درودِ پاک پڑھنے والے کا گناہ فرشتے تین دن تک نہیں لکھتے۔درود پاک پڑھنے والے کا درود شریف فرشتے دربارِ رسالت میں لے جا کر یوں عرض کرتے ہیں کہ "یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فلاں کے بیٹے فلاں نے حضور کے دربار میں درودِ پاک کا تحفہ حاضر کیا ہے " بہ کثرت درود پڑھنے سے لاعلاج اور ہر طرف سے مایوس بے اولادوں کو اولاد ملتی ہے ، بے روزگاروں کو روزگار ملتا ہے۔
ایک شیدائی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو دلائل الخیرات کے مؤلف ہیں، کی ایک نصیحت بھی یاد رہے ، وہ ایک حدیث مبارکہ کا یوں ذکر کرتے ہیں کہ "فرمایا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہ روزِ قیامت میرے نزدیک ترین لوگوں میں وہ ہوگا جو کثرت سے مجھ پر درود پڑھتا تھا" جب محبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی متمکن ہو جاتی ہے نفس کے اندر ، تو صورت پاک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عین بصیرت سے دم بھر بھی غائب نہیں ہوتی اور کچھ شک نہیں کہ درود بھیجنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جب خلوصِ دل سے ہو تو بلند ہوتی ہیں اور چمکتی ہیں روشنیاں اس کے باطن میں ، درود شریف پڑھنے والے کا نفس ایک آئینہ ہو جاتا ہے ، واسچے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کہ وہ صورت اس آئینہ سے غائب نہیں ہوتی اور یہی علم حقیقی ہے جس میں کوئی شک نہیں۔( حاشیہ دلائل الخیرات فارسی )
روایت ہے کہ جب آیت مبارکہ " ان اللہ و ملئکتہ یصلون علی النبی ، یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما" نازل ہوئی تو ایک صحابی حضرت بشیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ عزوجل نے ہمیں درود پڑھنے درود پڑھنے کا حکم دیا ہے ، پس ارشاد فرمائیے ہم کس طرح آپ پر درود پڑھیں۔ حضور نے سکوت فرمایا۔ یہاں تک ہم تمنا کرنے لگے کہ وہ شخص سوال ہی نہ کرتا ، پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوں کہا کرو :
"اللھم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی ال ابراھیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی ال ابراھیم انک حمید مجید "
احادیث میں اور بھی درود آئے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تعلیم فرمائے ، لیکن یہ وہ درود ہے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ذرا توقف کے بعد فرمایا ، اس قدرے خاموشی سے متعلق ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ، اسی اہمیت کے باعث بالعموم نماز میں یہی درود پڑھا جاتا ہے۔سب سے لذیذ تر اور شیریں تر خاصیت درود شریف کی یہ ہے کہ اس کی بدولت خواب میں حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دولتِ زیارت میسر ہوتی ہے۔ بعض درودوں کی بالخصوص بزرگوں نے آزمایا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شب و روز میں دو رکعت نماز پڑھنے اور ہر رکعت میں گیارہ بار آیت الکرسی اور گیارہ بار قل ھو اللہ اور سلام کے بعد سوبار یہ درود شریف پڑھے ، انشا اللہ تین جمعہ نہ گذرنے نہ پائیں گے کہ زیارت نصیب ہوگی ۔ وہ درود شریف یہ ہے :
اللھم صل علی محمد ن النبی الامی وآلہ و اصحابہ و سلم ( زاد السعید ص ۱۲ )
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک اور درود شریف بھی منقول ہے ، موصوف نے لکھا ہے کہ جو شخص دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں بعد الحمد کے25 بار قل ھو اللہ اور بعد سلام یہ درود شریف ہزار مرتبہ پڑھے ، دولتِ زیارت سے نصیب ہو ، وہ یہ ہے "صلی اللہ علی النبی الامی" ( فضائل درود )
درود کی ایک کتاب میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کی رات کو دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد آیت الکرسی اور پندرہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور نماز ختم کرنے کے بعد ایک ہزار بار درود شریف پڑھے تو انشا اللہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک وہ شخص اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خواب میں دیکھے گا۔ درود شریف یہ ہے "اللھم صلی علی محمد و ال محمد ن النبی الامی" ( درود شریف اور اسکے برکات و فضائل ص 273 )
حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ گنج مراد آبادی کا ایک درود زیارت کے لیے خاص ہے " اللھم صل علی سیدنا محمد و عترتہ بعدد کل معلوم لک "
ایک بزرگ جو درود تاج بڑے خلوص اور ذوق و شوق سے پڑھنے کے عادی تھے ان کو مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں خصوصی انداز سے طلب فرمایا گیا ، جب وہ حاضر ہوئے اور اسی ذوق و شوق سے گنبدِ خضرا کے سایہ میں درود تاج پیش کیا تو عالم بیدار میں ان کو عالم انوار میں لایا گیا۔ پھر لطفِ دیدار اور ہم کلامی سے نوازا گیا اور حکم ہوا کہ اس درود کے ساتھ شیخ سعدی کی یہ رباعی
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ​
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ وآلہ​
بھی پڑھا کرو ، اس روز سے ان کا یہی ورد تھا ( زادِ راہ۔ ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی )
مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ آپ کوئی بھی درود شریف پڑھیں ، ہر درود موجبِ زیارت ہوسکتا ہے ، شرط صرف اخلاص و محبت ہے ۔ حضور رحمۃ للعالمین ہیں ۔کبھی کسی پر اس طرح بھی لطف و کرم فرماتے ہیں کہ اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا۔
ایک مختصر درود " وصلے اللہ علی النبی الامی" ہے۔۔۔ اس درودِ پاک کا ورد باطن کو منور کرتا ہے اور اب ایک مختصر ترین درودِ پاک " صلی اللہ علیہ وسلم " ۔یہ درود شریف درودِ خضری کے نام سے مشہور ہے ، اور کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کا معمول یہی درود شریف تھا ۔ اور یہی درود شریف نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ ہمیشہ لکھا جاتا ہے۔ بچوں کو تعلیم دی جائے کہ ایک بار بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کلمہ طیبہ " لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ " پڑھیں اور پھر یہ درود پڑھیں تاکہ رحمتیں ان کا نصیبہ ہوں ( انشا اللہ تعالی)
"صلی اللہ علی محمد و الہ وسلم " اس درود شریف میں کوئی نقطہ نہیں ہے اور اس کے الفاظ کی تعداد کلمہ طیبہ کے الفاظ کی تعداد کے برابر ہے ۔ ایک گرانقدر ہدیہ مبارک جو مکہ معظمہ کے ایک بزرگ حافظ قبلہ محمد صدیق الیمنی نے عطا فرمایا تھا ، نذر احباب ہے ، یہ ایک مختصر ترین سلام ہے لیکن بڑے فضائل و کرم کا موجب ہے " صلی اللہ وسلم علیک یا نبی اللہ "۔ جب بھی روضہ مبارکہ پر حاضری نصیب ہوئی تو مواجہ شریف میں کھڑے ہو کر یہ سلام ستر مرتبہ پڑھیں اور آخر میں ایک بار کہیں "قد ضاقت حیلتی فادرکنی" انشا اللہ تعالی یہ سلام آپ کی تقدیر بنانے کے لیے کافی ہے۔
بزرگوں اور دوستوں سے عرض ہے کہ جب بھی درود شریف پڑھیں تو توجہ سے ، دل سے حضوری کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کریں اور درود شریف کی برکت اور فیض سے اپنا نصیبہ بنائیں۔ رب کریم ہم سب کو اس تلاوتِ درود کے انوار آنکھوں سے دکھائے۔ آمین
 

الف نظامی

لائبریرین
آسِ عاصیاں

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں​
وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں
جو سرورِ عالم کا میلاد مناتے ہیں​
بیمارو ذرا جانا دربارِمحمد میں
وہ جام شفا اب بھی بھر بھر کے پلاتے ہیں​
جس کا بھری دنیا میں کوئی بھی نہیں والی
اس کو بھی میرے آقا سینے سے لگاتے ہیں​
اس آس پہ جیتا ہوں کہہ دے کوئی یہ آ کر
چل تجھ کو مدینے میں سرکار بلاتے ہیں​
آقا کی ثنا خوانی دراصل عبادت ہے
ہم نعت کی صورت میں قرآن سناتے ہیں​
اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں نبی سرور
یہ سچ ہے نیازی ہم سرکار کا کھاتے ہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
جان جہاں

سبحان اللہ مااجملک، ما احسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میانہ قد ، سرخی لیے سفید رنگ تھے۔ہر دو شانہ مبارک میں قدرے فاصلہ تھا۔ بال مبارک نرمہ گوش تک پہنچتے تھے ۔ مابین نرمہ شامہ و گاہے شانہ تک پہنچتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر و ریش مبارک میں بڑھاپے میں سفید بال بیس تک نہ پہنچے تھے۔ چہرہ مبارک بہت روشن تھا کہ چودھویں رات کے چاند کی طرح جگمگاتا ، اگر خاموش ہوتے ، ہیبت و عظمت الہی ظاہر ہوتی اور اگر کلام فرماتے تو لطف و نزاکت ( بشری ) نمودار ہوتی ۔ دور سے دیکھنے والا جمال و نزاکت کا ادراک کرتا اور نزدیک سے ملاحت و شیرینی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کشادہ پیشانی ، دراز و باریک ابرو غیرمتصل ، بلند بینی ، نرم رخسار ، کشادہ دہان روشن اور کشادہ دندان مبارک تھے۔ ہر دو شانہ مبارک کے درمیان مہر نبوت تھی۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مثل کوئی نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلقِ کریم کے بارے میں دریافت کیا گیا ، تو فرمایا "آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خلق قرآن ہے " یعنی ہر حال لطف و غضب میں فرمودہ حق سبحانہ و تعالی کے مطابق عمل فرماتے اور کسی سے اپنے نفسِ نفیس کے لیے انتقام نہ لیتے لیکن جب حقوق اللہ سے کوئی حق ضائع کیا جاتا تو اس کا انتقام لیتے۔ مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ تعالی خالقِ مخلوقات نے اپنا محبوب برگزیدہ فرمایا اور کوئی شخص جب آپ کو غصہ آتا تو راب نہ لا سکتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم شجاع ترین ، کریم ترین ، سخی ترین مخلوقات تھے ۔ کبھی ایسا موقع ہر گز نہیں ہوا کہ کسی نے سوال کیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رد فرمایا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلق کریم کو خالق عظیم نے مزین کیا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر مبارک سے رات تک درہم دینار کچھ باقی نہ رہتا ۔ اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہو اور لینے والا نہ ملا ہو اور ناگاہ رات آگئی ہو ، تو گھر مبارک میں داخل نہ ہوتے۔ جب تک وہ چیز مستحقوں کو پہنچا کر خود بری الذمہ نہ ہولیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم بات کہنے میں سب آدمیوں سے سچے ، سب سے زیادہ وفادار ، وعدہ میں اور خصلت میں سب سے اچھے اور سب لوگوں سے حلیم تر، پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ نظر مبارک زمین پر ڈالتے بہ نسبت آسمان کے زمین پر نظر مبارک زیادہ رہتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دیکھنا گوشہ چشم سے ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ متواضع تھے ۔ کوئی دعوت کرتا ، غنی ہو یا فقیر ، آزاد ہو یا غلام ، قبول فرما لیتے۔مخلوق پر شفیق ترین مہربان تھے۔ بلی کے لیے برتن ٹیڑھا فرماتے اور عنایت شفقت سے نہ اٹھاتے جب تک وہ سیراب نہ ہو لیتی۔ مجلس میں پہنچتے تو جہاں مجلس منتہی ہوتی اور جس جگہ پر پہنچتے ، وہیں تشریف رکھتے۔ صدارتِ مجلس کا ارادہ نہ فرماتے اور اسی خصلت کے ساتھ امر فرماتے۔ اپنے ہم نشینوں میں سے ہر ایک کو حصہ دیتے۔ یعنی ہر ایک کے حسبِ حال اکرام اور توجہ مبذول فرماتے ۔ ہم نشینوں میں سے کوئی یہ نہ جانتا کہ میرے سوا دوسرے کی عزت آنحضرت کے نزدیک زیادہ ہے اور جب کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ نہ اٹھتا نہ اٹھتے، مگر بوقت ضرورت اس سے اجازت لیکر اٹھتے ۔ کسی کے روبرو ایسے امر کا ذکر نہ فرماتے جو سامع کو ناگوار گزرے۔ کسی کی بدخوئی و بے ادبی کا مقابلہ نہ فرماتے بلکہ عفو درگزر فرماتے۔ محتاجوں اور فقیروں کو دوست رکھتے ، ان کے ساتھ ہم نشینی فرماتے ، ان کے جنازوں پر تشریف لے جاتے۔ کسی فقیر کو بہ سبب احتیاج اس کے حقیر نہ جانتے۔ کسی بادشاہ سے بہ بادشاہی اس کے ہیبت نہ کھاتے ، نعمت الہی کو اگرچہ تھوڑی ہو ، بزرگ جانے اور اس کو برائی سے نہ یاد فرماتے ۔ طعام کا عیب ہرگز نہ کرتے۔ اگر خواہش ہوتی تناول فرماتے ۔ ورنہ ترک کر دیتے۔ ہمسایہ کی خبر گیری کرتے ۔ مہمان کی عزت فرماتے۔ صلی اللہ علیہ وسلم
 

الف نظامی

لائبریرین
رحمتِ دوعالم بحیثٹ معلم اخلاق

اخلاقِ نبوی
یا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔ بحیثت معلم اخلاق
حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیاتِ بابرکات کا یہ پہلو ایسا ہے کہ پہلے گزرنے والے تمام انبیائے کرام میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسا نہیں۔
اس اعزاز اور انفرادیت کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو فرمایا ،اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات اقدس کے اس نہایت اہم اور بڑے وسیع باب کی چند جھلکیاں تبصرے کے بغیر بھی بات کو واضح کرتی رہیں، کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔
ایک بات اور وہ یہ کہ عام طور پر صرف تواضع و انکسار اور رحم دلی کو اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مظہر قرار دے دیا جاتا ہے، حالانکہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس لحاظ سے بھی افضل ترین ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات اقدس کے ہر پہلو ، تہہ اور گوشے سے اخلاق کا نور جھلکتا اور چھلکتا ہے۔
اوراب اخلاقِ نبوی کے بارے میں قرآنی تعریف
انک لعلی خلق عظیم (بےشک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بہت ہی بڑے اخلاق والے ہیں) کی چند عملی تفسیریں۔
[align=center:70ff67b3b7]رازدانوں کی گواہی​
[/align:70ff67b3b7]
اہلیہ سے بڑھ کر انسان کے اخلاق کا شاہد تو کوئی نہیں ہوتا۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا ، حضرت عائشہ نے جوابا فرمایا : کان خلقہ القرآن ( آپ کا اخلاق قرآن تھا )۔یعنی قرآنِ مجید میں جو بھی اچھی صفات بیان کی گئی ہیں ، وہ سب آپ میں موجود تھیں۔ ایک اور موقع پرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی۔ برائی کے بدلے میں برائی نہ کرتے بلکہ درگزر فرماتے اور معاف فرما دیتے۔ آپ کو جب دو باتوں میںاختیار دیا جاتا تو آسان بات کو اختیار فرماتے، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو ، ورنہ آپ اس سے بہت دور ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔جو کوئی احکام خداوندی کی خلاف ورزی کرتا، آپ احکامِ ربی کے مطابق اس پر حد جاری کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نام لیکر کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہیں کی۔ آپ نے کبھی کسی غلام ، لونڈی ، عورت یا جانور کو اپنے دستِ مبارک سے نہیں مارا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی کی کوئی جائز درخواست رد نہیں فرمائی۔ گھر تشریف لاتے تو مسکراتے ہوئے۔ محفل میں پاوں پھیلا کر نہ بیٹھتے۔ گفتگو ٹھہر ٹھہر کر اس طرح فرماتے کہ کوئی یاد رکھنا چاہے تو رکھ لے۔( بخاری ، مسلم )
 

الف نظامی

لائبریرین
اسی نوعیت کی ایک اور شہادت
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا نبوت سے پہلے اور بعد میں کل پچیس برس تک آپ کی رفیقہ حیات رہیں۔ انہوں نے فرمایا: حضور صلہ رحمی کرتے ہیں، مقروضوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، غریبوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ، حق کی حمایت کرتے ہیں اور مصیبت میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
اور اب ایک رفیق خاص کے تاثرات:
ایک روز حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد حجرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل و کردار کے متعلق پوچھا : حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے دریا کی سی روانی سے فرمایا: "آپ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اخلاق و برتاو میں انتہائی نرم تھے ، سہولت کی زندگی بسر کرنے والے تھے ، یعنی نہ سخت مزاج تھے اور نہ بدخو، نہ کبھی بیہودہ بات زبان سے نکالتے اور نہ کبھی کسی کی عیب جوئی کرتے ، کوئی چیز پسند نہ ہوتی تو اس سے بے پروائی برتتے نہ اس کی برائی بیان کرتے ، نہ رغبت کا ظہار فرماتے ۔ تین چیزوں سے آپ نے اپنی ذات کو ہمیشہ سے محفوظ رکھا
• کبر وغرور سے
• مال و دولت جمع کرنے سے
• فضول اور لایعنی باتوں سے
اس طرح تین چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دوسروں کو محفوظ رکھا
• کبھی کسی کی مذمت نہیں کی نہ کسی کی تحقیر کی
• کبھی کسی کو عیب لگا کر شرمندہ نہیں کیا
• کبجھی کسی کے پوشیدہ عیوب کی کرید نہیں کی
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف وہی بات کرتے جس پر خدا سے اجر و ثواب کی توقع ہوتی
مجلس میں جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے تو لوگ خاموشی ، ادب اور محویت کے ساتھ سنتے کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب تک بولتے سب یکسوئی اور توجہ سے سنتے کوئی درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات کاٹ کر نہ بولتا۔ جب آپ خاموش ہوجاتے تو لوگ اپنی بات کہتے ۔ اگر کوئی اجنبی بدو آپ سے سوال کرنے یا کچھ کہنےمیں بے ادبی کربیٹھتا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صبر وتحمل سے کام لیتے ، کبھی غصے کا اظہار نہ فرماتے ۔ لوگ ناگواری کا اظہار کرکے اسے وہاں سےہٹانے کی کوشش کرتے تو آپ اسے گوارا نہ کرتے اورفرماتے جب کوئی غرورت مند تمہارے سامنے اپنی حاجت رکھے تو اسے مایوس نہ کرو ، جب تک ہوسکے اس کی حاجت پوری کرو ، ورنہ نرمی سے صبر و شکر کی تلقین کرو۔ اپنی تعریف سے کبھی خوش نہ ہوتے ۔ ہاں اگر کبھی کسی کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے کوئی بات کہہ دی جاتی یا کسی غلط فہمی اور زیادتی کی تلافی کے لئے آپ کی شان میں کوئی کلمہ خیر کہہ دیا جاتا ، تو اسے گوارا کرلیتے۔ کسی کی بات کاٹ کر آپ کبھی اپنی بات نہ کہتے ۔ آپ کی شخصیت علم و صبر کی جامع تھی ۔ اپنی ذات کے لئے نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم غضبناک ہوتے اور نہ کبھی نفرت و بے زاری کا اظہار فرماتے۔ ہاں اگر کوئی دین کے معاملے میں سرکشی کرتا یا کسی کا حق دباتا تو آپ کا غصہ اس وقت تک ٹھنڈا نہ ہوتا جب تک اس کی تلافی نہ ہوجاتی۔
چار چیزوں میں آپ انتہائی چاق و چوبند تھے ، ان میں کبھی سستی نہ دکھاتے
• نیکی اور بھلائی اختیار کرنے میں
• برائی اور بدی کا تدارک کرنے میں
• امت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں غور و فکر کرنے میں
• اور ان امور کو اختیار کرنے میں جو امت کی دنیا و آخرت کے سنوارنے والے ہوں"
( داعی اعظم ۔از محمد یوسف اصلاحی )
ایسا کہاں سے لائیں
حضرت انس کی والدہ محترمہ انہیں دس سال کی عمر میں سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کر آئی تھیں۔ ان کی خوش نصیبی کہ دس سال تک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت کرنے کا اعزاز ملا۔ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق پوچھا تو حجرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :
میں نے مسلسل دس سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں گزارے۔ اس طویل مدت میں میں نے ایک بار بھی یہ نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجلس کے ساتھیوں اور ہم نشینوں کی طرف اپنے پاوں پھیلائے ہوں ، نہ کبھی یہ دیکھا کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مصافحہ کیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم برابر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیئے رہتے یہاں تک کہ وہ خود ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیتا۔
میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کوئی شخص آپ سے ملنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس سے خود کبھی ہٹ گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم برابر کھڑے رہتے جب تک کہ وہ شخص خود ہی نہ ہٹ جاتا۔
اور میں نے جو کام بھی کیا ، ٹھیک ہوگیا ہو یا خراب کبھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں کیا، نہ کبھی یہ فرمایا کہ ایسا اور ایسا کیوں نہیں کیا۔ میں نے بارہا عطر سونگھا ہے اور اچھے سے اچھا عطر سونگھا ہے مگر آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خوشبو سے بہتر خوشبو نہیں سونگھی اور آج تک میں نے کبھی یہ بھی نہیں دیکھا کہ کسی نے سرگوشی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سرجھکایا ہو اور اس شخص کے سر ہٹانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی اپنا سر ہٹایا ہو ( داعی اعظم از محمد یوسف اصلاحی)
 

الف نظامی

لائبریرین
سرکار کی رحمتیں

چند روز پہلے ایڈیٹر ہلال کے دفتر میں اہلِ دل کی محفل سجی تھی۔میں بھی حاضر تھا وہاں بات ہورہی تھی کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خزانے ست لاعلاج بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ مختلف حاضرین محفل نے مختلف بزرگوں کے مختلف واقعات سنائے۔
1۔ علامہ احمد بن قسطلانی "مواہب لدنیہ" میں فرماتے ہیں کہ کئی سال میں ایک لاعلاج بیماری کا شکار رہا۔ طبیبوں نے جواب دے دیا۔ میں نے 28 ربیع الاول 893 ہجری کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے التجا کی۔ میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا ۔ ان کے پاس ایک کاغذ ہے جس پر لکھا ہے کہ " اذن شریف نبوی سے یہ احمد بن قسطلانی کی بیماری کی دوا ہے " جب میری آنکھ کھلی تو خدا کی قسم میں نے اس بیماری کا نشان نہ پایا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے شفا حاصل ہوگئی۔
2۔ علامہ یوسف نبہانی فرماتے ہیں کہ ایک شخص عبد الملک بن سعید بن خیار بن جبر کے پاس آیا ۔ انہوں نے اس شخص کا پیٹ ٹٹولا اور کہا تجھے ایک لاعلاج بیماری لاحق ہے ۔ یہ سن کر وہ شخص لوٹ آیا اور تین بار یہ دعا مانگی "اللہ اللہ اللہ میرا پروردگار ہے ۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ۔ یاللہ میں تیری بارگاہ میں تیرے نبی کا وسیلہ پیش کرتا ہوں ۔ یامحمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں آپ کے اور آپنے رب کی بارگاہ میں آپ کا وسیلہ پیش کرتا ہوں کہ وہ س بیماری میں مجھ پر ایسی رحمت کرے کہ جس سے میں کسی غیر کی مدد سے بے نیاز ہو جاوں " ۔ اس دعا کے بعد وہ پھر ابنِ جبر کے پاس گیا ۔ جنہوں نے اس کا پیٹ ٹٹولا تو کہا خدا کی قسم تو تندرست ہوگیا ہے تجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔
3۔ عبدالرحمن جزولی فرماتے ہیں کہ میری آنکھ ہر سال خراب ہوجاتی تھی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر فریاد کی :"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں آپ کے شہر میں ہوں ، آپ کی خدمت میں حاضر ہوں،
اور میری آنکھ خراب ہے " دعا کے بعد آنکھ کھلی تو آرام آگیا اور آج تک مجھے وہ تکلیف نہیں ہوئی۔
4۔ فقیہ ابو محمد شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب فضیلت حج میں لکھا ہے کہ اہلِ غرناطہ میں سے ایک شخص کو ایسا مرض لاحق ہوا کہ طبیبوں نے اس کی شفا سے مایوس ہوکر لاعلاج قرار دے دیا ۔ ایک شخص ابو عبداللہ محمد بن ابی الخصال نے حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حضور ایک خط لکھا اور اس مریض کی شفا کے لیے سرکار کا وسیلہ مانگا ۔ یہ خط کسی اور شخص کے ہاتھ مدینہ منورہ بھیج دیا ۔ جس لمحے وہ خط حضورِ انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ مبارک پر پڑھا گیا تو عین اسی وقت وہ مریض غرناطہ میں بالکل تندرست ہوگیا۔ خط لے جانے والے نے واپس آکر مریض کو دیکھا تو پہچان نہ سکا گویا وہ بیمار ہوا ہی نہ تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
5۔ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے قصیدہ بردہ شریف کا سبب تصنیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں مرض فالج میں مبتلا ہوگیا ۔ یہ لاعلاج مرض تھا ، اس نے میرا نصف بدن بےکار کردیا ۔ میں نے یہ قصیدہ تیار کیا ۔حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے بارگاہ رب تعالی میں اپنی صحت یابی کے لیے دعا کی۔میں نے اس قصیدے کو بار بار پڑھا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرکے سوگیا۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لاتے ہیں ۔ اپنا دست مبارک میرے جسم کے مفلوج حصے پر پھیرتے ہیں اور اپنی چادر مبارک مجھ پر ڈال دیتے ہیں۔ آنکھ کھلی تو خود کو تندرست پاتا ہوں۔ میں نے اس قصیدے کا ذکر کسی سے نہ کیا تھا مگر صبح کو گھر سے نکلا تو ایک مرد درویش راستے میں ملے ۔ کہنے لگے کہ وہ قصیدہ مجھے دے دو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان مبارک میں لکھا ہے۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا: آپ کونسا قصیدہ طلب فرما رہے ہیں ۔ کہنے لگے جو تم نے بحالت مرض میں لکھا اور پھر بار بار پڑھا ۔ مردِ درویش نے اس کے چند اشعار سنا کر کہا کہ خدا کی قسم! جب تم پڑھ رہے تھے ، تو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کو سن کر یوں جھوم رہے تھے جیسے بادِ نسیم کے جھونکے سے میوہ دار درخت کی شاخیں جھومتی ہیں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو پسند فرمایا اور تم پر سدت مبارک پھیرا اور چادر مبارک تم پر ڈال دی ۔ یہ سن کر میں نے قصیدہ ان مردِ درویش کو دے دیا ، انہوں نے لوگوں سے ذکر کردیا اور بات مشہور ہوگئی ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محفل ہلال میں ایک صاحب نے قاضی عبد الغنی کے حوالے سے حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ سنایا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ایک نابینا شخص نے مسلسل دو روز تک سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ مبارک پر اپنی بینائی کے لیے دعا کی ۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دوسرے روز اس شخص کو مخاطب ہوکر کہا کہ “اگر کل تک تیری بینائی بحال نہ ہوئی تو تجھے قتل کردوں گا“
نابینا پریشان اور لوگ حیران ہوگئے ۔ پوچھنے پر حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ہو ہی نہیں‌سکتا کہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضہ مبارک پر صمیمِ قلب سے دعا مانگی جائے اور وہ قبول نہ ہو! یہ شخص صمیم قلب سے دعا نہیں مانگ رہا۔ یوں یہ سرکار کی توہین کا مرتکب ہورہا ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تہِ دل سے دعا کرئے ور پہلی دعا کے نتیجے میں نظر بحال نہ ہوجائے ۔ اگلے روز لوگوں نے دیکھا کہ وہ شخص خوشی خوشی مسجد نبوی میں آرہا ہے اور حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ امیر المومنین آپ نے درست فرمایا ۔ میں پیدائشی نابینا تھا ۔ میں اللہ تعالی کے‌ حبیب کے روضہ مبارک پر حاضر ہوکر دعا مانگتا تھا مگر کل آپ کے انتباہ کے بعد میں نے اس یقین کے ساتھ دعا مانگی تھی کہ اللہ تعالی اپنے حبیب کے روضے پر ان کے توسل سے مانگی گئی دعا رد نہ کرئے گا۔ چناچہ دیکھیے اللہ تعالی کے فضل سے میری دعا قبول اور نظر بحال ہوگئی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محفل پھیلتی گئی اور ذکرِ رسول مقبول کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔۔۔۔ عین اسی موقع پر مجھے ایک ذاتی واقعہ یاد آگیا ۔ جو نذر قارئین ہلال کرتا ہوں:
1973 میں میری پلٹن بارہ بلوچ حیدرآباد میں متعین تھی مگر چند افراد اور افسروں اور جوانوں کے خاندانوں کے سبھی چھوڑھ کے مقام سے کچھ آگے سرحد پر فرائض انجام دے رہے تھے۔ فون پر اک دن اطلاع ملی کہ چھوٹی لڑکی ارم سخت بیمار ہے اور وہ ہل
جل نہیں سکتی ۔ چھٹی لیکر حیدر آباد پہنچا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے پولیو ہوگیا ہے ۔ یہ توبتانے کی ضرورت نہ تھی کہ اس موذی مرض کا علاج نہایت طویل ہوتا ہے اور سالہا سال کے علاج اور دیکھ بھال کے باوجود مکمل صحت شاذ و ناذ ہی نصیب
ہوتی ہے ۔سپشلسٹوں ، دوسرے ڈاکٹروں اور حکیموں سے بھی مشورہ لیا مگر سبھی یہی کہتے تھے کہ فوری علاج ممکن نہیں ۔ کراچی کے ڈاکٹر جمعہ اعصابی بیماریوں کے ممتاز ماہر سنے جاتے تھے ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ان کے بیٹے کا ان ہی
دنوں انتقال ہوا تھا ۔ شفقتِ پدری عود کرآئی ۔ انہوں نے تفصیلی ملاحظہ کیا ۔ جو ٹسٹ حیدرآباد میں لیے گئے تھے انہیں دیکھا اور کہا کہ تین چار سال کی مسلسل نگہداشت اور علاج کے بعد بچی اٹھ سکے گی اور شاید چل پھر بھی سکے مگر مرض کا حملہ اتنا شدید ہے کہ اب بدن کا اصلی حالت پر آنا ممکن نہیں۔
اب تک ارم کی بیماری کی خبر ابا جی ( بریگیڈئیر گلزار احمد ) سے پوشیدہ رکھی ہوئی تھی ۔ ابا جی گھر کی تمام مستورات سمیت چھ مہینوں کے لیے مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غذوات کے میدان ہائے جنگ
دیکھنے کے بعد غزواتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کتاب مرتب کر رہے تھے۔ جو کچھ ڈاکٹروں نے بتایا اس کی اطلاع ابا جی کو دی اور دعائے صحت کی درخواست کی ۔ ابا جی میری بڑی بیٹی مبینہ مختار کو بھی ساتھ لیکر گئے تھے اسے پیدائش کے جلد
بعد ہی آپا نے لے لیا تھا ۔ خالہ اور آپا سے پال رہی تھیں ۔ دو سال قبل جب وہ تین سال کی تھی تو اس وقت خالہ جی کے ساتھ حج کر آئی تھی ۔ اس مرتبہ بھی ابا جی کے ساتھ حج میں شامل تھی اور مسلسل ہر نماز باقاعدگی کے ساتھ حرم نبوی میں ادا کرتی تھی
۔ بچپن سے ہی رسولِ مقبول کو صلی مقبول کہہ کریاد کرتی تھی ۔ ہم نے یہاں بھی بزرگوں فقیروں سے رجوع کیا ۔ مگر بڑی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حضور شفاعت و سفارش تو مدینہ میں ہی ہوسکتی تھی ۔ ظاہر ہے کہ اباجی ، امی جان ، خالہ جان اور آپا نے دعائیں کی ہوں گی ۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ مبینہ اپنی بہن کے لیے روضہ اقدس کی جالی کو پکڑ کر اور رو رو کر پکارا کرتی تھی:
"صلی مقبول میری بہن کو ٹھیک کرائیں نا"
اور ایک دن یکایک اس کی بہن معجزانہ طور پر مکمل طور پر صحت یاب ہوگئی اوروہ جو اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہ تھی ، دوڑنا بھاگنا شروع ہوگئی۔ آج ماشاءاللہ ارم مکمل طور پر تندرست ہے اور ذہنی اور جسمانی طور پر پولیو کے حملے کا کسی طرح کا اثر
موجود نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جانِ جاناں صلی اللہ علیہ والہ وسلم

جانِ جاناں صلی اللہ علیہ والہ وسلم​
مذاہب عالم کو دیکھیے اور پیشوایانِ مذہب کے حالات تلاش کیجیے یا تو وہ معدوم ہوگئے یا مسخ ہو کر رہ گئے۔
لیکن حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو دیکھیے ۔ ایک ایک بات اور ایک ایک ادا محفوظ ہے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرتِ شریفہ کا اعجاز ہے ، نہ صرف یہ کہ حیات ِ طیبہ کتابوں میں محفوظ ہے بلکہ چودہ سو برس گزر جانے کے بعد آج بھی عرفا و اولیا کی پاک زندگیوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ایسی جیتی جاگتی سیرت سے روگردانی نوعِ انسانی کی بدنصیبی ہوگی ۔ خوش نصیب وہی ہے جو عرفانِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم حاصل کرکے سعادتِ ابدی سے بہرہ یات ہو ، لیکن عرفانِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مطالعہ و مشاہدہ انوارِ نبویہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر مبنی ہے۔
شیخ اھمد جواد الدومی علیہ الرحمۃ نے الاتحاف الربانیہ مے مقدمہ میں خوب فرمایا ہے : حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفاتِ جلیلہ کی معرفت آپ کے عرفانِ عظمت کا وسیلہ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظمت ، تعظیمِ شریعت کا، تعظیمِ شریعت عمل کا اور عمل سعادتِ ابدی کا۔
لیکن محبت کا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ہم سیرت مصطفوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی میں سمو لیں اور نظامِ مصطفی کے خواب بھی اسی وقت شرمندہِ تعبیر ہوسکتے ہیں ، لیکن صرف متابعت سے کام نہیں بن سکتا ۔ محبت ضروری ہے ۔ بغیر محبت متابعت مردود ہے۔
زنہار ازاں قوم نباشی کی فریبند
حق را بہ سجودے و نبی را بہ درودے
(غالب)
شاہانِ عالم اپنی رعایا سے صرف متابعت کے طلب گار ہیں ۔ محبت کے نہیں ۔ لیکن خالق حقیقی جل مجدہ صرف متابعت نہیں ، محبت بھی چاہتا ہے اور ایسی محبت جس کے آگے والدین ، آل واولاد ، عزیز و اقارب ، مال و دولت ، مکانات و محلات سب کی محبتیں ہیچ نظر آئیں۔
آیہ کریمہ احب الیکم من اللہ ورسولہ
میں اسی محبت کو طلب کیا گیا ہے اور محبت میں کمال جب پیدا ہوگا جب اغیار سے منہ موڑ لیا جائے اور صرف ان کی غلامی اختیار کی جائے ۔ عاشقانِ رسول علیہ التحیۃ والتسلیم سے یہ بعید ہے کہ یوادون من حاد اللہ و رسولہ
ظہوری نے کیا خوب کہا ہے
شدہ است سینہ ظہوری پر از محبت یار
برائے کینہ اغیار در دلم جا نیست
عجیب نکتہ بیان کرگیا ۔ وہ کہتا ہے کہ جس دل میں محبوب جلوہ آرا ہو اس دل میں اغیار کی محبت تو درکنار اس کی دشمنی بھی جگہ نہیں پاسکتی کہ دشمنی بھی تعلق کی ایک صورت ہے۔ اللہ اکبر! یہ ہے کمال محبت کہ خانہ دل میں محبوب کے سو کوئی اور نہ ہو
بے حجابانہ در آ از در کاشانہ ما
کہ کسے نیست بجز درد تو در خانہ ما
ترجمہ حضور بالکل بے حجاب ہوکر میرے دل میں چلے آئیں کیوں کہ اس گھر میں آپ کی محبت کے درد کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جب تک محبت میں کمال پیدا نہیں ہوتا زندگی زندگی نہیں بنتی ۔ اسی لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
الا لا ایمان لمن لا محبۃ لہ ، الا لا ایمان لمن لا محبۃ لہ ، الا لا ایمان لمن لا محبۃ لہ
اے کہ تو از نام تو می بارد عشق
از نامہ و پیغام تو می بارد عشق
عاشق شود آنگہے کہ بکویت گزرد
آرے زد رو بام تو می بارد عشق​
آئیے حریم جاناں میں چلیں اور اس جانِ ایمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کودیکھیں
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء​
ہوا عبیر فشاں است و ابر گوہر بار
جلوسِ گل بہ سریر چمن مبارک باد
( غالب )​
ہر طرف اندھیرا اندھیرا تھا ۔ چاند تھا لیکن بے نور سا ، ستارے تھے لیکن بجھے بجھے سے ، آفتاب تھا لیکن ڈوبا ہوا سا ، عقلوں پر پتھر پڑ گئے تھے ، دل اجڑ گئے تھے اور خزاں نے بہاروں کو لوٹ کر چمن ویران کردئے تھے کہ اچانک :
یوں افق در افق جھلملاتی شفق
شب پہ جس طرح شب خون مارا گیا
اور پھر نور کا ایسا تڑکا ہوا
ہر طرف انقلاب حسیں آگیا
سیل انورِ رحمت رواں جو ہوا
نور ہی نور تھا جس طرف دیکھیے
دیدہ ودل اجالوں میں ڈوبے ہوئے
جلوہ طور تھا جس طرف دیکھیے
( کاوش)​
ہاں وہ آنے والا آگیا ، جس کا روزِ ازل سے انتظار تھا ، کیسا حسین کہ دل کھنچے جارہے ہیں ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرما رہے ہیں
لم ار قبلہ و لا بعدہ مثلہ​
حسن تیرا دیکھا نہ سنا
کہتے ہیں اگلے زمانے والے
( رضا )​
اور یہی بات خالق حسن وجمال کہہ رہا ہے لیس کمثلہ شیئ اس جیسا ہونا تو بڑی بات ہے محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسا بھی کوئی نہیں۔
بے مثال کی ہے مثال وہ حسن
خوبی یار کا جواب کہاں
( حسرت )​
اور حضرت برا بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرما رہے ہیں
مارایت شیئا قط احسن منہ
اے مثل تو درجہاں نگارے
یزداں دگرے نہ آفریدہ
(جگر)​
حسن وجمال کے جذب و کشش کا یہ عالم تھا کہ پیشانیاں جھکنے کے لیے بے قرار تھیں۔
پیش نظر وہ نوبہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
( رضا )​
جسم مبارک کیا تھا ، معلوم ہوتا تھا کہ چاندی میں ڈھالا گیا ہے ، چمتا ہوا مہکتا ہوا۔
کیا مہکتے ہیں مہکنے والے
بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے
( رضا )​
رنگ مبارک سنہری بھی ، روپہلی بھی ، ایسا پرکشش کہ بس دیکھے جائیے۔
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام​
قد مبارک نہ بہت دراز اور نہ بہت پست ، بس درمیانہ نہایت موزوں
قدے کہ طوباش ادنی غلامے
( جگر )​
روئے مبارک کی بات نہ پوچھیے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں
یتلا لاء وجھہ تلاء لوا القمر لیلۃ البدر​
ترجمہ
چہرہ مبارک اس طرح چمکتا تھا جس چرح چودھویں کا چاند چمکتا ہے۔
حسنِ بے داغ کے صدقے جاوں
یوں دمکتے ہیں دمکنے والے
(رضا)​
اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فھو عندی احسن من القمر
ترجمہ :نہیں نہیں چاندسے بھی زیادہ حسیں
حسن مہ گرچہ بہنگام کمال اچھا ہے
اس سے یہ مرا مہ ضورشید جمال اچھا ہے
(غالب)​
مگر کاوش کی تشبیہ نہایت عالی ہے ، وہ کہتے ہیں
چہرہ حضور کا ہے کہ قرآں کھلا ہوا
ہر اک ادا ہے رفعتِ عرفاں لیے ہوئے
(کاوش)​
فرق مبارک موزوں ، بڑا اور بھاری ، موئے مبارک نہ گھنگریالے نہ سخت ، بس گرہ گیر
صفا از عقدہ دلہا است آں زلف معقد را
بحمد للہ کہ ربطے ہست بامطلق مقید را
(نظیری)​
کبھی کانوں کی لو تک جھولتے رہتے اور کبھی شانوں کو چوم چوم لیتے ، کبھی دو دو زلفیں پڑی ہیں ، کبھی چار چار گیسو بکھرے ہیں۔
زلف سیاہ ہش صد دل بدامے
(جگر)​
کبھی مانگ نکلی ہے کبھی مانگ نکالی جارہی ہے ۔ روزانہ نہیں ایک دن بیچ کرکے ، جبینِ مبارک نہایت کشادہ اور چمکدار
لوح جنبش ماہ تمامے
(جگر)​
چشم مبارک نہایت سیاہ اور سفیدی میں سرخ ڈورے
آنکھیں ہمیشہ جھکی جھکی رہتیں
نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود
 

الف نظامی

لائبریرین
ابروے مبارک لمبی لمبی اور انتہائی خوبصورت کمان کی طرح خمیدہ یا ہلالینِ عیدین ، مژگان مبارک بڑی بڑی ۔
آں تیغ ابرو واں تیرِ مژگاں
آمادہ ہر یک بر قتل عامے
(جگر)​
بینی مبارک نہایت اونچی اور دیکھنے والں کو تو بہت ہی اونچی معلوم ہوتی ہے
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام​
رخسار مبارک ہموار و تاباں
جن کے آگے چراغ قمر جھلملائے
ان عذاروں کی طلعت پہ لاکھوں سلام
(رضا)​
دہن مبارک کشادہ ، چشمہ علم و حکمت ، برہان الہی۔
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان​
دندان مبارک نہایت چمکیلے ، اگلے دانتوں میں جھری ہے ، جب ہنستے ہیں تو چمک اٹھتے ہیں ۔ بس اسی جلوہ جواہر کو قہقہہ کہہ لیں یا کھلکھلا کر ہنسنا۔
دندانِ پاک سے ہیں دمکتے گہر بھی ماند
اور لب خراج لعل بدخشاں لئے ہوئے
(کاوش)​
ریش مبارک گھنی تھی ، چند بال سفید باقی سیاہ اور سیاہی مائل سرخ جو تمہیدِ سفیدی تھے۔
مہ کوگھیرے ہوئے سنہری کرن
یا لب جو ہے خورشید پر تو فگن
(اختر)​
دونوں شانوں کے درمیان کچھ فاصلہ تھا۔ اس کے بیچوں بیچ چاندی کی طرح شفاف صراحی دار گردن اور اس کے بالکل پیچھے مہر نبوت۔ نور علیٰ نور
حجر اسود کعبہ جان و دل
یعنی مہر نبوت پہ لاکھوں سلام
(رضا)​
ہتھیلیاں پر گوشت ، ریشم سے زیادہ نرم و ملائم ، کلائیاں لمبی لمبی ، جس پر دست کرم پھیرا شفا یاب ہوا انگشت مبارک لمبی لمبی ، سینہ مبارک فراخ کشادہ ، شکم مبارک سینے سے ہموار پائے مبارک پُرگوشت اور گہرے، اور خرامِ ناز ایسا کہ شرمائے شرمائے ، جھکے جھکے ، جیسے نشیب سے فراز کی طرف جارہے ہوں ، بظاہر آہستہ آہست ، مگر تیز تیز
[align=right:7657bb0903]عرش جس خوبی رفتار کا پامال ہوا
دو قدم چل کے دکھا سرو خراماں ہم کو
(رضا)[/align:7657bb0903]
 

الف نظامی

لائبریرین
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیاہ عمامہ زیب سراقدس فرماتے تھے جس میں شملہ بھی ہوتا تھا ، رومی جبہ زیبِ تن فرمایا اور سیاہ بالوں والی کملی بھی استمعال فرمائی۔ سفید لباس بہت پسند تھا ۔ سرخ و سیاہ اور سبز لباس بھی زیبِ تن فرمایا۔ کرتا بہت مرغوب تھا ۔ تہبند بھی بہت پسند تھا ، جو نصف پنڈلی تک رہتا۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو ملاحظہ فرمایا کہ وہ نیچا تہبند باندھے جارہے ہیں۔ ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا:-
اَمَالَکَ فی اُسوَۃ
ترجمہ : کیا میرے طرز عمل میں تیرے لیے نمونہ نہیں ہے؟
بے شک عاشق کو حکم کی ضرورت نہیں ، نشان قدم کی ضرورت ہے وہ اسی پر مر مٹتا ہے ، موشگافیاں اہل عقل کو مبارک ہوں۔
اسی موقع پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:-
فلا حق للازار فی الکعبین
ترجمہ: تہبند کا ٹخنوں پر کوئی حق نہیں
اللہ اللہ دنیا میں حقوق کی ایسی پاسداری کس نے کی ہوگی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات سب نے سنی ہوگی لیکن حقوق الاعضاء کی بات نہ سنی ہوگی۔ کیا خوب ارشاد ہے کہ جس کا جو حق ہے وہی اسی کو ملنا چاہیے، کسی کو حق سے زیادہ دے کر دوسروں کی حق تلفی نہ کرو ۔ ہماری بربادی کی اصل وجہ یہی حق تلفیاں ہیں ۔ شاہِ جبش نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں سیاہ چمڑے کےموزوں کی ایک جوڑی بھیجی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہ بھی استمعال فرمائی ۔ دوتسمے والے پاپوش مبارک بھی استمعال فرمائے۔ یہ پھٹ جاتے تو خود ہی مرمت فرما لیتے۔ سبحان اللہ !
سرکارِ دوعالم کے پاس اسلحہ بھی تھے۔ کئی تلواریں تھیں، جن کے مختلف نام تھے ۔ العون ، العرجون۔ شمائل ترمذی میں یہ نام ملتے ہیں اور شمائل شریف احمد عبد الجواد الدومی نے یہ نام بھی لکھے ہیں۔
قغیب قلعی ، تبار ، حتف ، مخذم ، رسوب ، صمصام ، لحیف ، ذوالفقار۔ زرہیں بھی کئی تھیں شمائل ترمذی میں یہ دو نام ملتے ہیں ۔ ذات الفصول اور فضہ ، احمد عبد الجواد الدومی نے یہ نام بھی لکھے ہیں۔ ذات الوشاح ، ذات الحواشی ، السعدیہ ، البشراء ، الحزنق۔
جنگ احد میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ذات الفصول اور فضہ زیبِ تن کئے ہوئے تھے، لب اور رخسار لہولہان۔ دشمنوں نے شہادت کی خبر اڑا دی، صحابہ رضی اللہ عنہ تتر بتر ہوگئے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک چٹان پر چڑھ کر جاں نثاروں کو دیدار کرانا چاہتے ہیں ، مگر چڑھ نہیں پاتے ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ حاضر ہیں جھک رہے ہیں اور سرکارِِ دوعالم ان کی پشت پر چڑھ کر پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں ۔۔ سبحان اللہ ! قدوم مبارک نے پشت طلحہ رضی اللہ عنہ کو عرشِ بریں بنا دیا۔
اوجِ طالعِ “پشت طلحہ“ دیکھتے ہیں​
 
Top