ہلکی پھلکی سی ایک غزل، تنقید و راہنمائی کے لیے،'' ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا''

ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا
لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھنا
بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا
وہی ہے میری محبت، مرا سکوں لکھ کر
اُسی کو جان بھی لکھنا مرا جہاں لکھنا
وہی تھا در بھی تو دیوار بھی وہی لیکن
اُجڑ گیا جو بنایا تھا آشیاں لکھنا
بدل سکا نہ تو ہی اک جہان میں اظہر
بدل گئی ہے زمیں اور آسماں لکھنا
 
ایک تبدیلی

ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا
لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھنا
بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا
وہی ہے میری محبت، مرا سکوں لکھ کر
اُسی کو جان بھی لکھنا مرا جہاں لکھنا
وہی تھا در بھی تو دیوار بھی وہی لیکن
کہاں گیا جو بنایا تھا آشیاں لکھنا
بدل سکا نہ تو ہی اک جہان میں اظہر
بدل گئی ہے زمیں اور آسماں لکھنا
 

باباجی

محفلین
بہت خوب جناب
گو کہ میں شاعر نہیں
نا ہی مجھے شاعری کے بارے میں کچھ پتا ہے
لیکن
جوالفاظ یا شعر مجھے اچھے لگے وہ یہ ہیں

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا
 
بہت خوب جناب
گو کہ میں شاعر نہیں
نا ہی مجھے شاعری کے بارے میں کچھ پتا ہے
لیکن
جوالفاظ یا شعر مجھے اچھے لگے وہ یہ ہیں

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا
بہت شکریہ، نوازش باباجی
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح کے بعد


ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا
لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھنا
//جب خود کلامی ہے تو ’اپنی داستاں ‘کہو نا!
ذرا فراغ ملے، اپنی داستاں لکھنا
لگے ہیں زخم بھی جانے کہاں کہاں لکھنا

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا
//بہتر ہو کہ یوں کہو
بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ،جو بھی لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں، لکھنا
ویسے ’پنے‘ کی جگہ یہ بھی کہہ سکتے ہو
بکھر گئے ہیں ورق وہ یہاں وہاں، لکھنا


وہی ہے میری محبت، مرا سکوں لکھ کر
اُسی کو جان بھی لکھنا مرا جہاں لکھنا
//بہتر ہو کہ اس کو یوں کر دیا جائے:
وہی ہے میری محبت، وہی سکون بھی ہے/ وہ دل کا چین بھی ہے
اُسی کو جان بھی کہنا ، اسےجہاں لکھنا
ایک بار ’میری ‘آ گیا تو مطلب تو واضح ہو ہی جاتا ہے، اس کے علاوہ ایک جگہ ’لکھنا‘ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

وہی تھا در بھی تو دیوار بھی وہی لیکن
کہاں گیا جو بنایا تھا آشیاں لکھنا
//’تو‘ کی ضرورت نہیں
وہی تھا در بھی، تھی دیوار بھی وہی، لیکن
کہاں گیا جو بنایا تھا آشیاں، لکھنا

بدل سکا نہ تو ہی اک جہان میں اظہر
بدل گئی ہے زمیں اور آسماں لکھنا
//پہلا مصرع رواں نہیں اور دوسرے مصرع میں بدل گئے ہیں کا محل ہے۔
بس اک /اس جہاں میں نہ تو ہی بدل سکا اظہر
بدل گئے ہیں زمیں اور آسماں لکھنا
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے، مبارک ہو
 
اصلاح کے بعد


ذرا فراغ ملے، میری داستاں لکھنا
لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھنا
//جب خود کلامی ہے تو ’اپنی داستاں ‘کہو نا!
ذرا فراغ ملے، اپنی داستاں لکھنا
لگے ہیں زخم بھی جانے کہاں کہاں لکھنا

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، میں نے لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں لکھنا
//بہتر ہو کہ یوں کہو
بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ،جو بھی لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں، لکھنا
ویسے ’پنے‘ کی جگہ یہ بھی کہہ سکتے ہو
بکھر گئے ہیں ورق وہ یہاں وہاں، لکھنا


وہی ہے میری محبت، مرا سکوں لکھ کر
اُسی کو جان بھی لکھنا مرا جہاں لکھنا
//بہتر ہو کہ اس کو یوں کر دیا جائے:
وہی ہے میری محبت، وہی سکون بھی ہے/ وہ دل کا چین بھی ہے
اُسی کو جان بھی کہنا ، اسےجہاں لکھنا
ایک بار ’میری ‘آ گیا تو مطلب تو واضح ہو ہی جاتا ہے، اس کے علاوہ ایک جگہ ’لکھنا‘ سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

وہی تھا در بھی تو دیوار بھی وہی لیکن
کہاں گیا جو بنایا تھا آشیاں لکھنا
//’تو‘ کی ضرورت نہیں
وہی تھا در بھی، تھی دیوار بھی وہی، لیکن
کہاں گیا جو بنایا تھا آشیاں، لکھنا

بدل سکا نہ تو ہی اک جہان میں اظہر
بدل گئی ہے زمیں اور آسماں لکھنا
//پہلا مصرع رواں نہیں اور دوسرے مصرع میں بدل گئے ہیں کا محل ہے۔
بس اک /اس جہاں میں نہ تو ہی بدل سکا اظہر
بدل گئے ہیں زمیں اور آسماں لکھنا
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے، مبارک ہو
اُستاد محترم اگر صیغہ بدل کر یوں لکھ دوں تو کیسا رہے گا ، ورنہ جیسا آپ نے فرمایا

ذرا فراغ ملے، اپنی داستاں لکھ دوں
لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھ دوں

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، لکھ کے رکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں، لکھ دوں


وہی تھی میری محبت، اُسے بتانا ہے
اُسی کو جان بھی لکھ دوں مرا جہاں لکھ دوں

وہیں ہے در بھی، وہ دیوار بھی وہیں، لیکن
بکھر گیا جو بنایا تھا آشیاں، لکھ دوں

بس اک جہاں میں وہی میں ہی رہ گیا اظہر
بدل گئے ہیں زمیں اور آسماں لکھ دوں
 
لکھ دوں ردیف بھی درست ہے، لیکن کچھ اصلاحیں تم نے قبول نہیں کیں، ایسا لگتا ہے۔کیوں؟
ایسا نہیں اُستاد محترم، لیکن صیغہ بدلنے کی وجہ سے شعر کا مفہوم بدل رہا تھا ، اسلیے ۔ اگر آُپ فرمائیں تو وہی صیغہ استعمال کرتے من و عن
 

الف عین

لائبریرین
صرف ایک دو اشعار میں ہی لکھنا کی جگہ لکھ دوں سے مطلب بگڑ رہا تھا۔ بہر ھال بعد میں غور کرتا ہوں کہ کیا صورت بہتر ہے۔ اس میں (لکھ دوں میں) روانی زیادہ ہے، اس میں شک نہیں۔ اسی زمین کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
ذرا فراغ ملے، اپنی داستاں لکھ دوں
لگے ہیں زخم نہ جانے کہاں کہاں لکھ دوں
//لگے ہیں زخم بھی جانے کہاں کہاں لکھ دوں

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ، لکھ کے رکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں، لکھ دوں
// یوں بہتر ہوگا۔
بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ،جو بھی لکھا تھا

وہی تھی میری محبت، اُسے بتانا ہے
اُسی کو جان بھی لکھ دوں مرا جہاں لکھ دوں
// یہ شعر بھی پچھلی اصلاح کے مطابق ہی بہتر ہے۔
وہی ہے میری محبت، وہ دل کا چین بھی ہےاُسی کو جان بھی کہہ لوں ، اسےجہاں لکھ دوں

وہیں ہے در بھی، وہ دیوار بھی وہیں، لیکن
بکھر گیا جو بنایا تھا آشیاں، لکھ دوں
//درست

بس اک جہاں میں وہی میں ہی رہ گیا اظہر
بدل گئے ہیں زمیں اور آسماں لکھ دوں
//یہ بھی اس طرح زیادہ بہتر ہو گا۔
بس اس جہان میں اک میں ہی رہ گیا اظہر
بدل گئے ہیں زمیں اور آسماں لکھ دوں
 

ذرا فراغ ملے، اپنی داستاں لکھ دوں
لگے ہیں زخم بھی جانے کہاں کہاں لکھ دوں

بچا نہ کچھ بھی مرے پاس ،جو بھی لکھا تھا
بکھر گئے ہیں وہ پنے یہاں وہاں، لکھ دوں


وہی ہے میری محبت، وہ دل کا چین بھی ہے
اُسی کو جان بھی کہ لوں، اُسےجہاں لکھ دوں

وہیں ہے در بھی، وہ دیوار بھی وہیں، لیکن
بکھر گیا جو بنایا تھا آشیاں، لکھ دوں

بس اس جہان میں اک میں ہی رہ گیا اظہر
بدل گئے ہیں زمیں اور آسماں لکھ دوں
 
Top