ہم طبی اور طبعی طور پر ہرگز ہرگز شریر نہیں ہیں، اور نہ کبھی تھے پتہ نہیں لوگوں کو دوسروں ہر بے بنیاد الزامات لگانے کے عادت کیوں ہوتی ہے۔ اس میں زیادہ تر ہاتھ ہمارے پروفیسر ربانی صاحب کا ہے موصوف کو دوسروں کے ذاتی کردار میں اکثر و بیشتر کیڑے ہی نظر آتے تھے، خیر سے ڈاکٹر ہونے کا شرف ہمیں تو اب حاصل ہوا ہے مگر اس وقت جب ہم ایک فیصدی بھی ڈاکٹر نہ تھےوہ اس وقت بھی ہماری پریکٹس کے حوالے خاصے بدگمان بلکہ پیشگی ناامید تھے۔۔ ۔ اب ایک تو بندہ وہ ہوتا ہے جو بدگمان یا نا امید ہوتا ہے وہ حضرت صرف خود ہی نہیں دوسروں کو بھی چاہتے تھے کہ ہمیں ایسا ہی سمجھیں بلکہ علی الاعلان کہا کرتے تھے؛
"یہ پانچوں ڈاکٹر تو ضرور بنیں گے مگر ٹیکہ صرف مرغیوں کو لگایا کریں گے"
ہمارا اختلاف مرغیوں والے معاملے پرہرگز نہیں تھا کیونکہ ہم آزادی رائے کے ہمیشہ سے قائل رہے ہیں اس کا ثبوت ہم نے اکثر دیا ہے۔ ۔ ۔ مگر اس قسم کے بے بنیاد الزامات اکثر جھگڑے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ۔ ۔ چونکہ ہماری تربیت ہماری اماں نے کچھ اسطرح فرمائی تھی کہ ہم نے استاد کو ہمیشہ "روحانی باپ" کا درجہ دیا۔ بلکہ اس درجہ کو بھی معراج کا درجہ دیا۔ ۔ ۔ اس بات کو سب ہی مانتے ہیں۔ ۔ ۔ کیونکہ ہماری "اماں" کی تربیت خاصی سخت تھی۔ ۔ ۔ بلکہ ہمارے یار "سومرو" کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ
"سائیں آپ کی امی کی تربیت کا کچھ اثر "ملا عمر" کی تربیت میں بھی نظر آتا ہے ۔ ۔ ۔
ہم نے پوچھا وہ کیسے ۔ ۔ تو فرمایا کہ اس کے جہادی شاگرد بھی آپ کی طرح فرمانبردار ہوتے ہیں۔ ۔ ۔
اس رائے پر ہم ہمیشہ سے "سومرو" کے مشکور رہے ہیں ۔ اور کیوں نہ ہوں وہ واحد مرد مجاہد تھا جس کی عقابی آنکھیں ہماری شرافت، بالخصوص "معصومیت" کو کافی پہلے بھانپ چکی تھیں۔ ۔ ۔
اب دیکھیں نا ۔ ۔ ۔ ساجدہ کو کس نے کہا تھا کہ ربانی صاحب کی اندھا دھند تقلید کرے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرے۔۔ ۔ ۔ بھئ ہم سیکنڈ ایئر کے اسٹوڈنٹ تھے اس کا بھی تو فرض تھا نا کہ ہماری سینیاریٹی کو پاس رکھے۔ ۔ ۔ ۔ مگر آپ بھی اس بات کو سن کر ہماری "معصوم" شرافت کے قائل ہو جائیں گے کہ ہم نے زبان سے ایک لفظ بھی ساجدہ کے لئے ادا نہیں کیا کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ عورت کا احترام فرض ہے کیونکہ کسی کے ہاتھ کو تو روکا جا سکتا ہے مگر کسی کی زبان کو نہیں روکا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہم نے ہمیشہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کچھ کہھ دیں اور لوگ اسکا غلط مطلب لیکر بیچاری کو پریشان کریں۔ ۔ ۔ مگر وہ اک مقولہ ہے نہ کہ "کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نگاہ" سو ہم نے بھی سوچا کہ تھوڑی بہت سزا ہونی چاہیے مگر بے ضرر سی، تاکہ یہ لڑکی کسی ایسے بندے کے منہ نہ لگے جو ہماری طرح "معصوم" نہ ہو اور اس کو تنگ کرے۔۔ ۔ بڑی سوچ و بچار کے بعد بھی ہمیں کوئی آسان سزا سمجھ نہ آئی کہ اک دن ایسا ہوا کہ اتفاق سے ہم جمعہ کی نماز پڑہنے چلے گئے عموما ہم اس کے قائل نہیں تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ "کھو دیتا ہے قدر روز کا آنا جانا" اس لئے ہم بھی اپنی بے قدری کے خوف سے ذرا کم ہی مسجد کا رخ کیا کرتے تھے، سو جی ! مولانا صاحب جو اکثر اک خطبہ دیا کرتے ہیں، نماز سے پہلے۔۔۔۔ وہ چل رہا تھا جب تک ہم باہر تھے اس وقت تک ہماری سماعت میں لفظ حقوق العباد ٹکرا رہا تھا مگر جیسے ہی ہم اپنے احباب کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے مولاتا صاحب چہرے کا رنگ پہلے ذرا سا زرد ہوا، پھر کچھ نیلا ہوا، اور لمحوں میں یہ نیلاہٹ پہلے پیلاہٹ اور پھر سرخی مائل ہوئی اور اچانک ہی موضوع تبدیل ہوکر "ابلیس کی سوانح عمری" میں تبدیل ہوگیا، اس اچانک تبدیلی کو ہم نے ہی نہیں حاضرین مسجد نے بھی محسوس کیا مگر کیا ہو سکتا تھا وہ مولاتا تھے جو چاہیں اور جب چاہیں بولیں ۔۔۔ ان کی مثال تو شیرنی کی سی ہوتی ہے کہ شیرنی کی آنکھیں دو ہی موقعوں پرسرخ ہوتی ہے ایک جب وہ شکار پر چھپٹنے کو تیار ہوتی ہے اور دوسری بار جب وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اللہ جھوٹ نا بلوائے مگر ہم نے اس کو بھی اپنی خوش قسمتی سمجھا کہ چلو کسی بہانے ہی سہی لوگوں کو کم از کم شیطان کی ریشہ دوانیوں سے تو واقفیت حاصل ہوگی ، خیر جی بات چلتی رہی اور ہم پر "حضرت ابلیس" کی ذہانت آشکارہ ہوتی رہی، اس دن ہمیں اپنی کم علمی کا بڑی شدت سے احساس ہوا کہ ہم آج تک اس ذہین و فطین ہستی کی طرف سے کس قدر غلط فہمی کا شکار رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آپ آگے پرہیں گے تو ہمیں یقین کامل ہے کہ آپ بھی اپنی رائے ضرور تبدیل کر لیں گے کیونکہ مولانا صاحب جن چیزوں کو ریشہ دوانیوں سے تشبیہ دے رہے تھے ہمیں وہ فلاح معاشرہ کی کنجی نظر آرہی تھیں اور پھر ہم نے جو کچھ مولانا صاحب سے سنا اس میں سے ایک نسخہ پسند کر کے مناسب دن اور مناسب موقع کا انتظار شروع کردیا اور ساتھ ہی مولانا صاحب کو بھی سبق دینے کا نیک ارادہ کرکے نماز جمعہ ادا فرمائی کیونکہ ابلیس چاہے کتنا ہی ذہین سہی ۔۔۔ ہے تو بدنام نا۔۔۔ اور ہمیں دیکھ کر ہی کیوں مولانا صاحب کو ابلیس یاد آیا ؟ ۔ ۔ ۔ ہمارے خیال میں وہ جمعہ ہمارے لئے ہر لحاظ سے سودمند تھا اسکے بعد ہم نے بارہا مسجد کا رخ کیا مگر پھر ایسا "فروٹ فل" جمعہ خطبے کے لحاظ سے ہمیں میسر نہ آیا
خیر صاحبو ! ہمیں ایک دن ایسا موقع مل گیا جس ہم نے بڑی شدت سے انتظار کیا تھا یہ ہماری زندگی کا واحد انتظار تھا جو اس قدر طویل تھا یعنی پورے ڈیڑھ دن کے بعد۔۔۔۔۔ ہوا یوں کہ ساجدہ اس مخصوص بنچ پر بیٹھی نظر آئی جہاں بیٹھ کر وہ ہمارے خلاف مہم چلایا کرتی تھی بلکہ ڈیلی بیسس پر کارنر میٹنگ کیا کرتی تھی ۔۔۔ سو ہم نے بھی اسی کارنر کا انتخاب کیا مگر اس سے پہلے ہم نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ اس بنچ کے پیچھے کچھ بتاشے چورا کرکے ڈال دیے اور جب موٹے چیونٹے منڈلانے لگے تو ہم نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر یہ "سفوف شیریں" مزید پھیلا دیا کہ کہیں خوراک کی کمی سے مایوس ہوکر یہ اللہ کی خوبصورت مخلوق جو ایک میڈیکل کالج کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ رقم کرنے جا رہی تھی ادھر ادھر نہ ہو جائے کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق یہ مخلوق مایوس بڑی جلدی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ بہرحال جب ساجدہ صاحبہ وہاں براجمان ہوئیں تو ہم نے پہلے سے تیار شدہ "محلول شیریں" کی شیشی اپنے ہاتھوں میں لی۔۔۔ اور اس مجاہدانہ کاروائی پر جانے سے پہلے اپنے دوستوں سے گلے ملے اور مولانا صاحب کے حق میں بھی دعائے خیر پڑھی کہ انہیں کی بدولت ہم اس قابل ہوئے تھے۔۔۔۔ ہم نے کافی لمبا راؤنڈ لیکر ساجدہ کے عقب سے نقب لگانے کا فیصلہ کیا اور اس کے پیچھے جاکر ہم نے اسکا قمیص کے پچھلے دامن کو "محلول شیریں" سے ٹھیک ٹھاک "عرق آلود" کیا اور نہایت فرخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیچ کی بارڈر کو بھی گیلا کیا اور عین مقام پرکافی مقدار میں "سفوف شیریں" کا ڈھیر لگا دیا۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ہم واپس ہو لیے۔۔۔۔ اور پھر پورے کالج کے طالب علموں نے ایک نیا علم حاصل کیا کہ چیونٹے میٹھا کھانے میں خاصے تیز ہوتے ہیں اور اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بھی چٹ کرنے کی کامیاب سعی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور اس بار ان کی راہ میں رکاوٹ ساجدہ تھی۔۔۔۔۔ سو وہ ہوا جس کا ہم نے تو کیا ابلیس نے بھی نہ سوچا ہوگا۔۔۔۔ شاید ترقی زمانہ کی بدولت آپ حضرات کچھ اندازہ لگا سکتے ہوں۔۔۔ اور اسکے لیے کچھ زیادہ ذہین ہونا بھی شرط نہیں ہے۔۔۔۔۔ لیکن ایک بار پھر آپ لوگ ہماری شرافت اور "معصومیت" کے قائل ہوجائیں گے کہ ہم اپنی "انا" کو رد کرتے ہوئے ساجدہ کی خیریت پوچھنے "ایمرجنسی" تک گئے۔۔۔۔
دوپہر کو مسعود نے کہا کہ رضا یار اس سے پہلے کے ہم بہک جائیں میرا خیال ہے کہ مولانا صاحب پر بھی تجربہ کر لینا چاہیے۔۔۔۔ کیونکہ رمضان قریب ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو جی ہم لوگ مولانا صاحب کے رتبے کے پیش نظر چیونٹے والی ترکیب استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے وہ اس لیے بھی کہ ایک تو چیونٹے پاکیزگی کا خیال نہیں کرتےہیں ہر وقت ادھر ادھر منہ مارتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سو ہم نے مسجد کو اس ناپاک ہستی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا آخر ہم کو بھی اللہ کو منہ دکھانا ہے۔۔۔۔۔
سو ایک انوکھی ترکیب کے ساتھ ہم روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔ یہاں ہم مولانا صاحب لباس فاخرہ کا تذکرہ کرنا ضروری سمجتھے ہیں کہ مولانا صاحب ما سوائے جمعہ کے باقی تمام دنوں میں دھوتی پہنا کرتے تھے۔۔۔۔ اب آگے کیا ہوا یہ ذرا حادثاتی تھا۔۔۔۔ کیونکہ جو سوچا وہ نہ ہوا اور جو نہیں سوچا وہ ہو گیا۔۔۔۔ پرگرام یہ تھا کہ ہم کچی برف کا پانی مولانا صاحب پر ڈالیں جب وہ نماز پڑھ رہے ہونگے ۔۔۔۔ اس کام کو کرنے کا بیڑا سومرو نے اٹھایا کیونکہ بقول مسعود کے "سومرو ہم میں تیرا حلیہ ابلیس سے زیادہ قریب ہے ہوسکتا ہے تجھے دیکھ کر مولانا صاحب نے وہ تقریر کی ہو لہذا یہ اب تم پر فرض ہے کہ تم یہ مقدس کام سر انجام دو"۔۔۔۔۔
سو جی ! سومرو نے یخ ٹھنڈے پانی کا پیالا اٹھایا اور مولانا صاحب کے عین عقب میں پہنچ گیا۔۔۔ اتفاق سے اسی وقت مولانا صاحب سجدے میں چلے گئے۔۔۔۔ اور عین سجدے کی حالت میں پانی ڈالنا سومرو نے مناسب خیال نہ کیا اور سوچا کہ دونوں سجدے مکمل کرلیں پھر ڈالوں گا۔۔۔ کیونکہ وہ کتنا ہی ابلیس سے مشابہ سہی ہے تو مسلمان اور وہ مسلمان ہی کیا جو سجدے کے احترام سے واقف نہ ہو۔۔۔۔۔۔
مگر عین اس وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابلیس نے اپنی چال چلی اور سومرو کو انوکھا خیال سجھایا ۔۔۔۔۔۔
سومرو نے عین سجدے کی حالت میں وہ ٹھنڈے پانی سے لبریز پیالہ مولانا صاحب کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رکھا اور باہر چلا آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم شاید مسجد کے مین گیٹ تک آئے تھے جب مولانا صاحب سجدے سے اٹھے ۔۔۔۔۔۔۔اور پیالے پر بیٹھ گئے۔۔۔۔
اسکے بعد کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو "معصوم" ہیں۔۔۔۔۔ ہم ایسے واہیات اندازے نہیں لگانا چاہتے۔۔۔۔
"یہ پانچوں ڈاکٹر تو ضرور بنیں گے مگر ٹیکہ صرف مرغیوں کو لگایا کریں گے"
ہمارا اختلاف مرغیوں والے معاملے پرہرگز نہیں تھا کیونکہ ہم آزادی رائے کے ہمیشہ سے قائل رہے ہیں اس کا ثبوت ہم نے اکثر دیا ہے۔ ۔ ۔ مگر اس قسم کے بے بنیاد الزامات اکثر جھگڑے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ۔ ۔ چونکہ ہماری تربیت ہماری اماں نے کچھ اسطرح فرمائی تھی کہ ہم نے استاد کو ہمیشہ "روحانی باپ" کا درجہ دیا۔ بلکہ اس درجہ کو بھی معراج کا درجہ دیا۔ ۔ ۔ اس بات کو سب ہی مانتے ہیں۔ ۔ ۔ کیونکہ ہماری "اماں" کی تربیت خاصی سخت تھی۔ ۔ ۔ بلکہ ہمارے یار "سومرو" کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ
"سائیں آپ کی امی کی تربیت کا کچھ اثر "ملا عمر" کی تربیت میں بھی نظر آتا ہے ۔ ۔ ۔
ہم نے پوچھا وہ کیسے ۔ ۔ تو فرمایا کہ اس کے جہادی شاگرد بھی آپ کی طرح فرمانبردار ہوتے ہیں۔ ۔ ۔
اس رائے پر ہم ہمیشہ سے "سومرو" کے مشکور رہے ہیں ۔ اور کیوں نہ ہوں وہ واحد مرد مجاہد تھا جس کی عقابی آنکھیں ہماری شرافت، بالخصوص "معصومیت" کو کافی پہلے بھانپ چکی تھیں۔ ۔ ۔
اب دیکھیں نا ۔ ۔ ۔ ساجدہ کو کس نے کہا تھا کہ ربانی صاحب کی اندھا دھند تقلید کرے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرے۔۔ ۔ ۔ بھئ ہم سیکنڈ ایئر کے اسٹوڈنٹ تھے اس کا بھی تو فرض تھا نا کہ ہماری سینیاریٹی کو پاس رکھے۔ ۔ ۔ ۔ مگر آپ بھی اس بات کو سن کر ہماری "معصوم" شرافت کے قائل ہو جائیں گے کہ ہم نے زبان سے ایک لفظ بھی ساجدہ کے لئے ادا نہیں کیا کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ عورت کا احترام فرض ہے کیونکہ کسی کے ہاتھ کو تو روکا جا سکتا ہے مگر کسی کی زبان کو نہیں روکا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہم نے ہمیشہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کچھ کہھ دیں اور لوگ اسکا غلط مطلب لیکر بیچاری کو پریشان کریں۔ ۔ ۔ مگر وہ اک مقولہ ہے نہ کہ "کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نگاہ" سو ہم نے بھی سوچا کہ تھوڑی بہت سزا ہونی چاہیے مگر بے ضرر سی، تاکہ یہ لڑکی کسی ایسے بندے کے منہ نہ لگے جو ہماری طرح "معصوم" نہ ہو اور اس کو تنگ کرے۔۔ ۔ بڑی سوچ و بچار کے بعد بھی ہمیں کوئی آسان سزا سمجھ نہ آئی کہ اک دن ایسا ہوا کہ اتفاق سے ہم جمعہ کی نماز پڑہنے چلے گئے عموما ہم اس کے قائل نہیں تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ "کھو دیتا ہے قدر روز کا آنا جانا" اس لئے ہم بھی اپنی بے قدری کے خوف سے ذرا کم ہی مسجد کا رخ کیا کرتے تھے، سو جی ! مولانا صاحب جو اکثر اک خطبہ دیا کرتے ہیں، نماز سے پہلے۔۔۔۔ وہ چل رہا تھا جب تک ہم باہر تھے اس وقت تک ہماری سماعت میں لفظ حقوق العباد ٹکرا رہا تھا مگر جیسے ہی ہم اپنے احباب کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے مولاتا صاحب چہرے کا رنگ پہلے ذرا سا زرد ہوا، پھر کچھ نیلا ہوا، اور لمحوں میں یہ نیلاہٹ پہلے پیلاہٹ اور پھر سرخی مائل ہوئی اور اچانک ہی موضوع تبدیل ہوکر "ابلیس کی سوانح عمری" میں تبدیل ہوگیا، اس اچانک تبدیلی کو ہم نے ہی نہیں حاضرین مسجد نے بھی محسوس کیا مگر کیا ہو سکتا تھا وہ مولاتا تھے جو چاہیں اور جب چاہیں بولیں ۔۔۔ ان کی مثال تو شیرنی کی سی ہوتی ہے کہ شیرنی کی آنکھیں دو ہی موقعوں پرسرخ ہوتی ہے ایک جب وہ شکار پر چھپٹنے کو تیار ہوتی ہے اور دوسری بار جب وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اللہ جھوٹ نا بلوائے مگر ہم نے اس کو بھی اپنی خوش قسمتی سمجھا کہ چلو کسی بہانے ہی سہی لوگوں کو کم از کم شیطان کی ریشہ دوانیوں سے تو واقفیت حاصل ہوگی ، خیر جی بات چلتی رہی اور ہم پر "حضرت ابلیس" کی ذہانت آشکارہ ہوتی رہی، اس دن ہمیں اپنی کم علمی کا بڑی شدت سے احساس ہوا کہ ہم آج تک اس ذہین و فطین ہستی کی طرف سے کس قدر غلط فہمی کا شکار رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آپ آگے پرہیں گے تو ہمیں یقین کامل ہے کہ آپ بھی اپنی رائے ضرور تبدیل کر لیں گے کیونکہ مولانا صاحب جن چیزوں کو ریشہ دوانیوں سے تشبیہ دے رہے تھے ہمیں وہ فلاح معاشرہ کی کنجی نظر آرہی تھیں اور پھر ہم نے جو کچھ مولانا صاحب سے سنا اس میں سے ایک نسخہ پسند کر کے مناسب دن اور مناسب موقع کا انتظار شروع کردیا اور ساتھ ہی مولانا صاحب کو بھی سبق دینے کا نیک ارادہ کرکے نماز جمعہ ادا فرمائی کیونکہ ابلیس چاہے کتنا ہی ذہین سہی ۔۔۔ ہے تو بدنام نا۔۔۔ اور ہمیں دیکھ کر ہی کیوں مولانا صاحب کو ابلیس یاد آیا ؟ ۔ ۔ ۔ ہمارے خیال میں وہ جمعہ ہمارے لئے ہر لحاظ سے سودمند تھا اسکے بعد ہم نے بارہا مسجد کا رخ کیا مگر پھر ایسا "فروٹ فل" جمعہ خطبے کے لحاظ سے ہمیں میسر نہ آیا
خیر صاحبو ! ہمیں ایک دن ایسا موقع مل گیا جس ہم نے بڑی شدت سے انتظار کیا تھا یہ ہماری زندگی کا واحد انتظار تھا جو اس قدر طویل تھا یعنی پورے ڈیڑھ دن کے بعد۔۔۔۔۔ ہوا یوں کہ ساجدہ اس مخصوص بنچ پر بیٹھی نظر آئی جہاں بیٹھ کر وہ ہمارے خلاف مہم چلایا کرتی تھی بلکہ ڈیلی بیسس پر کارنر میٹنگ کیا کرتی تھی ۔۔۔ سو ہم نے بھی اسی کارنر کا انتخاب کیا مگر اس سے پہلے ہم نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ اس بنچ کے پیچھے کچھ بتاشے چورا کرکے ڈال دیے اور جب موٹے چیونٹے منڈلانے لگے تو ہم نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر یہ "سفوف شیریں" مزید پھیلا دیا کہ کہیں خوراک کی کمی سے مایوس ہوکر یہ اللہ کی خوبصورت مخلوق جو ایک میڈیکل کالج کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ رقم کرنے جا رہی تھی ادھر ادھر نہ ہو جائے کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق یہ مخلوق مایوس بڑی جلدی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ بہرحال جب ساجدہ صاحبہ وہاں براجمان ہوئیں تو ہم نے پہلے سے تیار شدہ "محلول شیریں" کی شیشی اپنے ہاتھوں میں لی۔۔۔ اور اس مجاہدانہ کاروائی پر جانے سے پہلے اپنے دوستوں سے گلے ملے اور مولانا صاحب کے حق میں بھی دعائے خیر پڑھی کہ انہیں کی بدولت ہم اس قابل ہوئے تھے۔۔۔۔ ہم نے کافی لمبا راؤنڈ لیکر ساجدہ کے عقب سے نقب لگانے کا فیصلہ کیا اور اس کے پیچھے جاکر ہم نے اسکا قمیص کے پچھلے دامن کو "محلول شیریں" سے ٹھیک ٹھاک "عرق آلود" کیا اور نہایت فرخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیچ کی بارڈر کو بھی گیلا کیا اور عین مقام پرکافی مقدار میں "سفوف شیریں" کا ڈھیر لگا دیا۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ہم واپس ہو لیے۔۔۔۔ اور پھر پورے کالج کے طالب علموں نے ایک نیا علم حاصل کیا کہ چیونٹے میٹھا کھانے میں خاصے تیز ہوتے ہیں اور اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بھی چٹ کرنے کی کامیاب سعی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور اس بار ان کی راہ میں رکاوٹ ساجدہ تھی۔۔۔۔۔ سو وہ ہوا جس کا ہم نے تو کیا ابلیس نے بھی نہ سوچا ہوگا۔۔۔۔ شاید ترقی زمانہ کی بدولت آپ حضرات کچھ اندازہ لگا سکتے ہوں۔۔۔ اور اسکے لیے کچھ زیادہ ذہین ہونا بھی شرط نہیں ہے۔۔۔۔۔ لیکن ایک بار پھر آپ لوگ ہماری شرافت اور "معصومیت" کے قائل ہوجائیں گے کہ ہم اپنی "انا" کو رد کرتے ہوئے ساجدہ کی خیریت پوچھنے "ایمرجنسی" تک گئے۔۔۔۔
دوپہر کو مسعود نے کہا کہ رضا یار اس سے پہلے کے ہم بہک جائیں میرا خیال ہے کہ مولانا صاحب پر بھی تجربہ کر لینا چاہیے۔۔۔۔ کیونکہ رمضان قریب ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو جی ہم لوگ مولانا صاحب کے رتبے کے پیش نظر چیونٹے والی ترکیب استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے وہ اس لیے بھی کہ ایک تو چیونٹے پاکیزگی کا خیال نہیں کرتےہیں ہر وقت ادھر ادھر منہ مارتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ سو ہم نے مسجد کو اس ناپاک ہستی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا آخر ہم کو بھی اللہ کو منہ دکھانا ہے۔۔۔۔۔
سو ایک انوکھی ترکیب کے ساتھ ہم روانہ ہوئے ۔۔۔۔۔ یہاں ہم مولانا صاحب لباس فاخرہ کا تذکرہ کرنا ضروری سمجتھے ہیں کہ مولانا صاحب ما سوائے جمعہ کے باقی تمام دنوں میں دھوتی پہنا کرتے تھے۔۔۔۔ اب آگے کیا ہوا یہ ذرا حادثاتی تھا۔۔۔۔ کیونکہ جو سوچا وہ نہ ہوا اور جو نہیں سوچا وہ ہو گیا۔۔۔۔ پرگرام یہ تھا کہ ہم کچی برف کا پانی مولانا صاحب پر ڈالیں جب وہ نماز پڑھ رہے ہونگے ۔۔۔۔ اس کام کو کرنے کا بیڑا سومرو نے اٹھایا کیونکہ بقول مسعود کے "سومرو ہم میں تیرا حلیہ ابلیس سے زیادہ قریب ہے ہوسکتا ہے تجھے دیکھ کر مولانا صاحب نے وہ تقریر کی ہو لہذا یہ اب تم پر فرض ہے کہ تم یہ مقدس کام سر انجام دو"۔۔۔۔۔
سو جی ! سومرو نے یخ ٹھنڈے پانی کا پیالا اٹھایا اور مولانا صاحب کے عین عقب میں پہنچ گیا۔۔۔ اتفاق سے اسی وقت مولانا صاحب سجدے میں چلے گئے۔۔۔۔ اور عین سجدے کی حالت میں پانی ڈالنا سومرو نے مناسب خیال نہ کیا اور سوچا کہ دونوں سجدے مکمل کرلیں پھر ڈالوں گا۔۔۔ کیونکہ وہ کتنا ہی ابلیس سے مشابہ سہی ہے تو مسلمان اور وہ مسلمان ہی کیا جو سجدے کے احترام سے واقف نہ ہو۔۔۔۔۔۔
مگر عین اس وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابلیس نے اپنی چال چلی اور سومرو کو انوکھا خیال سجھایا ۔۔۔۔۔۔
سومرو نے عین سجدے کی حالت میں وہ ٹھنڈے پانی سے لبریز پیالہ مولانا صاحب کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رکھا اور باہر چلا آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم شاید مسجد کے مین گیٹ تک آئے تھے جب مولانا صاحب سجدے سے اٹھے ۔۔۔۔۔۔۔اور پیالے پر بیٹھ گئے۔۔۔۔
اسکے بعد کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو "معصوم" ہیں۔۔۔۔۔ ہم ایسے واہیات اندازے نہیں لگانا چاہتے۔۔۔۔