کاشفی
محفلین
غزل
(خواجہ محمد الرئوف عشرت لکھنوی)
ہمارا جذب اُنہیں کھینچ لائے گا گھر سے
یہ کب اُمید تھی پھوٹے ہوئے مقدر سے
شہید کون ہوا قتل گاہ میں خنجر سے
لہو جو روتی ہے تلوار چشم جوہر سے
بلائے جاں ہے بخیلوں کے واسطے دولت
ہلاک ہوگیا قارون کثرت زر سے
وہ دو گھڑی جو عیادت کو میری آئے تھے
ابھی تک آتی ہے بوئے عروس بستر سے
مٹے نہ سوزش دل آہ سرد سے یارب
یہ شمعِ بزم نہ ٹھنڈی ہو باد صرصر سے
غم فراق سے کیوں دل نہ ٹکڑے ٹکڑے ہو
کہ چور چور ہو شیشہ لڑے جو پتھر سے
جگر میں زخم کوئی پڑ گیا نیا شاید
لہو ٹپکتا ہے ہر وقت دیدہ تر سے
جواب نامہ بھی بھیجا نہ یار نے عشرت
بہت خجل میں ہوا اپنے قلب مضطر سے
(خواجہ محمد الرئوف عشرت لکھنوی)
ہمارا جذب اُنہیں کھینچ لائے گا گھر سے
یہ کب اُمید تھی پھوٹے ہوئے مقدر سے
شہید کون ہوا قتل گاہ میں خنجر سے
لہو جو روتی ہے تلوار چشم جوہر سے
بلائے جاں ہے بخیلوں کے واسطے دولت
ہلاک ہوگیا قارون کثرت زر سے
وہ دو گھڑی جو عیادت کو میری آئے تھے
ابھی تک آتی ہے بوئے عروس بستر سے
مٹے نہ سوزش دل آہ سرد سے یارب
یہ شمعِ بزم نہ ٹھنڈی ہو باد صرصر سے
غم فراق سے کیوں دل نہ ٹکڑے ٹکڑے ہو
کہ چور چور ہو شیشہ لڑے جو پتھر سے
جگر میں زخم کوئی پڑ گیا نیا شاید
لہو ٹپکتا ہے ہر وقت دیدہ تر سے
جواب نامہ بھی بھیجا نہ یار نے عشرت
بہت خجل میں ہوا اپنے قلب مضطر سے