وقار علی ذگر
محفلین
پاکستان میں جمہوری عمل چلتے رہنا چاہیے ،آج جمہوریت کی جیت ہوئی ، ہم جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہیں دینا چاہتے وغیرہ کے جملے ہم آئے روز اپنے سیاستدانوں سے ٹی وی ٹاک شوز، سیاسی تقاریر یا اخباری بیانات میں سنتے اور پڑھتے ہیں یا کوئی بھی ایسا عمل جس میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا مفاد ہو اُسے " جمہوریت کا حسن " قرار دیکر عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے لیکن یہ جمہوریت ہے کیا ؟
یہ سوال اگر آپ کسی بھی عام شہری سے پوچھیں تو وہ شاید ہی آپکو اپنے جواب سے مطمئن کرپائے۔
عوام جمہوریت کے لغوی معنی و مفہموم سے آشنا ہوں یا نہ ہوں البتہ انھیں یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ موجودہ دور جمہوریت کا ہے یا پھر ڈکٹیٹرشپ کا پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں پاکستانیوں نے دونوں کی ادوار دیکھے۔
لفظ جمہوریت انگریزی کے لفظ Democracy کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو دو الفاظ Demos یعنی لوگ اور Kratos یعنی طاقت اور قوت کا مجموعہ ہے
جمہوریت کے بارے میں مفکرین نے کئی تعریفیں دی ہیں
سیلی کے مطابق
اور
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق
ان مفکرین کی دی گئی تعریف کی روشنی میں اگر ہم اپنے جمہوری نظام کی بات کریں تو ارسطو اور سیلی کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف بلکل درست بیٹھتی ہے یعنی ایک ہجوم ہی کی حکومت ہے جس میں سب شریک بھی ہیں ایک مخصوص طبقہ جو پچھلے دو تین دہائیوں سے حکمرانی میں مصروف ہے
ابراہم لنکن کی تعریف اسلئے درست نہیں آتی کیونکہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں چاہے عام انتخابات ہوں یا پھر ضمنی یا پھر بلدیاتی ہر الیکشن کے بعد اسکی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں یہی حال مئی 2013 کےعام انتخابات پھر ضمنی انتخابات ، بلدیاتی انتخابات ، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی ہوا یعنی جب عوام کے ووٹ کا استعمال ہی درست طرح سے نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت عوامی نہیں کیونکہ کوئی نیا چہرہ اسمبلی میں نہیں وہی پرانے چہرے منتخب ہوکر اسمبلی میں حلف لیتے ہیں اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں البتہ حکومت عوام کےلئے ہے یا نہیں چاہے وفاقی ہو یا پھر صوبائی اس پر بحث کی جاسکتی ہے
بات ہورہی تھی جمہوریت کی ایک اسی جمہوریت کی جس میں 284 معصوم جانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن معاملہ مذمتی بیانات دیکر رفع دفع کردیا گیا ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے 700 سے زائد بچے اغواء ہوئے ایک ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے اگر کسی وزیر ، لیڈر یا بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیت پر الزامات لگ جائیں اور وہ غلطی سے ثابت بھی ہوجائیں تو بھی انھیں کوئی ٹس سےمس نہیں کرسکتا ایسی جمہوریت جس میں جو جتنا زیادہ بدعنوان ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ، باعزت اور محب وطن ہے ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب نمائندے خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اوروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں جس بنائے ہوئے اسپتال اور اسکولوں کے متعلق وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں خود وہاں سے نہ تو علاج کرواتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرواتے ہیں
مئی 2013 میں ہونے والے الیکشن سےلیکر اب تک عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات اٹھائے ہوں یا نہیں البتہ پہلے PTI کے استعفوں پھر MQM اور اب پنامہ لیکس کے مسئلے پر خود کو خوب مصروف رکھا ہر پارٹی ہر مسئلے کے لئے اپنے اپنے مطالبات پیش کرتی ہے اور کچھ عرصے مطالبات مطالبات کھیلنے کے بعد
آسکہ وائلڈ کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف
بلکل درست آتی ہے جتنی محنت ہمارے حکمران جمہوریت کے مظبوط کرنے کے لئے کرتے ہیں اگر اتنی محنت عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اور انکا ترجمان بن کر انکے مسائل کے حل کے لئے انکی آواز اسمبلی فلور تک پہنچاتے
تویہی عوام حکمرانوں کے قدم سے قدم ملاکر پاکستان کی خوشحالی اور مضبوطی کے لئے کام کرتے لیکن یہ کام کریگا کون ؟
حکمران ؟
نہیں ان سے توموجودہ حالات میں اسکی امید نہ رکھی جائے کیونکہ ان کے اپنےمسائل بھی تو چل رہے ہیں اور
" جمہوریت " کو مضبوط بھی تو کرنا ہے
یہ سوال اگر آپ کسی بھی عام شہری سے پوچھیں تو وہ شاید ہی آپکو اپنے جواب سے مطمئن کرپائے۔
عوام جمہوریت کے لغوی معنی و مفہموم سے آشنا ہوں یا نہ ہوں البتہ انھیں یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ موجودہ دور جمہوریت کا ہے یا پھر ڈکٹیٹرشپ کا پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں پاکستانیوں نے دونوں کی ادوار دیکھے۔
لفظ جمہوریت انگریزی کے لفظ Democracy کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو دو الفاظ Demos یعنی لوگ اور Kratos یعنی طاقت اور قوت کا مجموعہ ہے
جمہوریت کے بارے میں مفکرین نے کئی تعریفیں دی ہیں
ارسطو کے مطابق " ہجوم کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے "
سیلی کے مطابق
" جمہوریت ایک ایسی طرز حکومت کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوتے ہیں "
اور
سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق
" عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے ، عوام کے لئے جمہوریت کہلاتی ہے "
ان مفکرین کی دی گئی تعریف کی روشنی میں اگر ہم اپنے جمہوری نظام کی بات کریں تو ارسطو اور سیلی کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف بلکل درست بیٹھتی ہے یعنی ایک ہجوم ہی کی حکومت ہے جس میں سب شریک بھی ہیں ایک مخصوص طبقہ جو پچھلے دو تین دہائیوں سے حکمرانی میں مصروف ہے
ابراہم لنکن کی تعریف اسلئے درست نہیں آتی کیونکہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں چاہے عام انتخابات ہوں یا پھر ضمنی یا پھر بلدیاتی ہر الیکشن کے بعد اسکی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں یہی حال مئی 2013 کےعام انتخابات پھر ضمنی انتخابات ، بلدیاتی انتخابات ، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی ہوا یعنی جب عوام کے ووٹ کا استعمال ہی درست طرح سے نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت عوامی نہیں کیونکہ کوئی نیا چہرہ اسمبلی میں نہیں وہی پرانے چہرے منتخب ہوکر اسمبلی میں حلف لیتے ہیں اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں البتہ حکومت عوام کےلئے ہے یا نہیں چاہے وفاقی ہو یا پھر صوبائی اس پر بحث کی جاسکتی ہے
بات ہورہی تھی جمہوریت کی ایک اسی جمہوریت کی جس میں 284 معصوم جانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن معاملہ مذمتی بیانات دیکر رفع دفع کردیا گیا ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے 700 سے زائد بچے اغواء ہوئے ایک ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے اگر کسی وزیر ، لیڈر یا بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیت پر الزامات لگ جائیں اور وہ غلطی سے ثابت بھی ہوجائیں تو بھی انھیں کوئی ٹس سےمس نہیں کرسکتا ایسی جمہوریت جس میں جو جتنا زیادہ بدعنوان ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ، باعزت اور محب وطن ہے ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب نمائندے خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اوروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں جس بنائے ہوئے اسپتال اور اسکولوں کے متعلق وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں خود وہاں سے نہ تو علاج کرواتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرواتے ہیں
مئی 2013 میں ہونے والے الیکشن سےلیکر اب تک عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات اٹھائے ہوں یا نہیں البتہ پہلے PTI کے استعفوں پھر MQM اور اب پنامہ لیکس کے مسئلے پر خود کو خوب مصروف رکھا ہر پارٹی ہر مسئلے کے لئے اپنے اپنے مطالبات پیش کرتی ہے اور کچھ عرصے مطالبات مطالبات کھیلنے کے بعد
" کچھ لو کچھ دو "
کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے مسئلےکا Happy engding کردیتے ہیں ۔ ان کے ان مطالبات کے درمیان غریب پستا رہے خود سوزی کرے ، غربت سے تنگ آکر گردے بیچنے پر مجبور ہوجائے یا اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتاردے حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ان حالات میں
آسکہ وائلڈ کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف
" عوام کے ڈنڈے کو عوام کے لئے عوام کی پیٹ پر توڑنا "
بلکل درست آتی ہے جتنی محنت ہمارے حکمران جمہوریت کے مظبوط کرنے کے لئے کرتے ہیں اگر اتنی محنت عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اور انکا ترجمان بن کر انکے مسائل کے حل کے لئے انکی آواز اسمبلی فلور تک پہنچاتے
تویہی عوام حکمرانوں کے قدم سے قدم ملاکر پاکستان کی خوشحالی اور مضبوطی کے لئے کام کرتے لیکن یہ کام کریگا کون ؟
حکمران ؟
نہیں ان سے توموجودہ حالات میں اسکی امید نہ رکھی جائے کیونکہ ان کے اپنےمسائل بھی تو چل رہے ہیں اور
" جمہوریت " کو مضبوط بھی تو کرنا ہے
وقارعلی ذگر
آخری تدوین: