ہمارا جمہوری نظام ۔۔۔

پاکستان میں جمہوری عمل چلتے رہنا چاہیے ،آج جمہوریت کی جیت ہوئی ، ہم جمہوریت کو پٹری سے اترنے نہیں دینا چاہتے وغیرہ کے جملے ہم آئے روز اپنے سیاستدانوں سے ٹی وی ٹاک شوز، سیاسی تقاریر یا اخباری بیانات میں سنتے اور پڑھتے ہیں یا کوئی بھی ایسا عمل جس میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا مفاد ہو اُسے " جمہوریت کا حسن " قرار دیکر عوام کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے لیکن یہ جمہوریت ہے کیا ؟
یہ سوال اگر آپ کسی بھی عام شہری سے پوچھیں تو وہ شاید ہی آپکو اپنے جواب سے مطمئن کرپائے۔
عوام جمہوریت کے لغوی معنی و مفہموم سے آشنا ہوں یا نہ ہوں البتہ انھیں یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ موجودہ دور جمہوریت کا ہے یا پھر ڈکٹیٹرشپ کا پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں پاکستانیوں نے دونوں کی ادوار دیکھے۔

لفظ جمہوریت انگریزی کے لفظ Democracy کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو دو الفاظ Demos یعنی لوگ اور Kratos یعنی طاقت اور قوت کا مجموعہ ہے
جمہوریت کے بارے میں مفکرین نے کئی تعریفیں دی ہیں

ارسطو کے مطابق " ہجوم کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے "​

سیلی کے مطابق
" جمہوریت ایک ایسی طرز حکومت کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوتے ہیں "​

اور

سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق
" عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے ، عوام کے لئے جمہوریت کہلاتی ہے "​

ان مفکرین کی دی گئی تعریف کی روشنی میں اگر ہم اپنے جمہوری نظام کی بات کریں تو ارسطو اور سیلی کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف بلکل درست بیٹھتی ہے یعنی ایک ہجوم ہی کی حکومت ہے جس میں سب شریک بھی ہیں ایک مخصوص طبقہ جو پچھلے دو تین دہائیوں سے حکمرانی میں مصروف ہے
ابراہم لنکن کی تعریف اسلئے درست نہیں آتی کیونکہ جب بھی پاکستان میں الیکشن ہوتے ہیں چاہے عام انتخابات ہوں یا پھر ضمنی یا پھر بلدیاتی ہر الیکشن کے بعد اسکی شفافیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں یہی حال مئی 2013 کےعام انتخابات پھر ضمنی انتخابات ، بلدیاتی انتخابات ، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں بھی ہوا یعنی جب عوام کے ووٹ کا استعمال ہی درست طرح سے نہ ہو تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے اور اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت عوامی نہیں کیونکہ کوئی نیا چہرہ اسمبلی میں نہیں وہی پرانے چہرے منتخب ہوکر اسمبلی میں حلف لیتے ہیں اور دعوے کرتے نظر آتے ہیں البتہ حکومت عوام کےلئے ہے یا نہیں چاہے وفاقی ہو یا پھر صوبائی اس پر بحث کی جاسکتی ہے

بات ہورہی تھی جمہوریت کی ایک اسی جمہوریت کی جس میں 284 معصوم جانوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن معاملہ مذمتی بیانات دیکر رفع دفع کردیا گیا ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے 700 سے زائد بچے اغواء ہوئے ایک ایسی جمہوریت جس کے ہوتے ہوئے اگر کسی وزیر ، لیڈر یا بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیت پر الزامات لگ جائیں اور وہ غلطی سے ثابت بھی ہوجائیں تو بھی انھیں کوئی ٹس سےمس نہیں کرسکتا ایسی جمہوریت جس میں جو جتنا زیادہ بدعنوان ہے وہ اتنا ہی زیادہ معزز ، باعزت اور محب وطن ہے ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب نمائندے خود بیرون ملک سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اوروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہیں جس بنائے ہوئے اسپتال اور اسکولوں کے متعلق وہ ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں خود وہاں سے نہ تو علاج کرواتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرواتے ہیں

مئی 2013 میں ہونے والے الیکشن سےلیکر اب تک عوامی نمائندوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی عملی اقدامات اٹھائے ہوں یا نہیں البتہ پہلے PTI کے استعفوں پھر MQM اور اب پنامہ لیکس کے مسئلے پر خود کو خوب مصروف رکھا ہر پارٹی ہر مسئلے کے لئے اپنے اپنے مطالبات پیش کرتی ہے اور کچھ عرصے مطالبات مطالبات کھیلنے کے بعد

" کچھ لو کچھ دو "
کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایک ساتھ تصویر کھنچواتے ہوئے مسئلےکا Happy engding کردیتے ہیں ۔ ان کے ان مطالبات کے درمیان غریب پستا رہے خود سوزی کرے ، غربت سے تنگ آکر گردے بیچنے پر مجبور ہوجائے یا اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتاردے حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ان حالات میں

آسکہ وائلڈ کی جمہوریت کے بارے میں دی گئی تعریف
" عوام کے ڈنڈے کو عوام کے لئے عوام کی پیٹ پر توڑنا "

بلکل درست آتی ہے جتنی محنت ہمارے حکمران جمہوریت کے مظبوط کرنے کے لئے کرتے ہیں اگر اتنی محنت عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اور انکا ترجمان بن کر انکے مسائل کے حل کے لئے انکی آواز اسمبلی فلور تک پہنچاتے
تویہی عوام حکمرانوں کے قدم سے قدم ملاکر پاکستان کی خوشحالی اور مضبوطی کے لئے کام کرتے لیکن یہ کام کریگا کون ؟
حکمران ؟

نہیں ان سے توموجودہ حالات میں اسکی امید نہ رکھی جائے کیونکہ ان کے اپنےمسائل بھی تو چل رہے ہیں اور
" جمہوریت " کو مضبوط بھی تو کرنا ہے



وقارعلی ذگر
 
آخری تدوین:

ابن خلدون مقدمے میں ریاست کی تین اقسام بیان کرتا ہے
١.ملوکیت
٢.سیاست عقلی
٣٣. خلافت
" ملوکیت " کا تعلق براہ راست عصبیت کے جذبے کے ساتھ ہے اور بغیر عصبیت ملوکیت کا چلنا ممکن نہیں یہ عصبیت ہی دراصل وہ قوت فراہم کرتی ہے کہ جو ملوکیت کا ایندھن قرار دی جا سکتی ہے .
" سیاست عقلی " کا سراغ ابن خلدون نے اس دور میں لگایا تھا کہ جب جدید جمہوریت کا تصور اپنے واضح خد و خال کے ساتھ نہیں ابھرا تھا ایک ایسا نظام کہ جس میں لوگوں کے منتخب نمائندے اپنی عقل کے مطابق اتفاق رائے سے ایک سیاسی نظام تشکیل دیں کہ جس کی بنیاد دین پر نہ ہو .
" خلافت " کی بحث کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ ..
نری بادشاہت جو عصبیت کی طاقتوں کے زریعے زندہ ہو تو وہ اسلئے غلط ہے اور جور و عدوان کے مترادف ہے کہ اس میں خواہشات انسانی کی روک تھام کیلئے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا .
سیاست عقلی میں یہ قباحت ہے کہ اس میں وہ روشنی ہی مفقود ہے جو دین مہیا کرتا ہے اسلئے قدرتی طور پر اس کے دوائر میں محدود دنیا ہی کے مفادات آ سکتے ہیں عقبی کے تقاضوں کو سمجھنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے .
رہا سیاست دین کا مسلہ تو وہ نظام سامنے آتا ہے کہ جس میں صلاح دنیا کے ساتھ ساتھ صلاح
آخرت کا اہتمام بھی موجود ہو اسی نظام کو انبیا علیہم السلام چلاتے ہیں اور ان کے بعد انکے خلفاء انکی قائم مقامی کرتے ہیں .
فی معنی الخلافتہ والا امامتہ
دور جدید میں جب سیکولر حضرات کی جانب سے سوالات سامنے آتے ہیں تو اسلام پسندوں کے پاس بودی تاویلات کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا انکے اس معذرت خواہانہ رویے کی وجہ سے ہی ایک جانب تو اسلام کی حقیقی تصویر دوسروں تک نہیں پہنچ پاتی اور دوسری جانب انکی مدافعت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ شرمساری کی شکل اختیار کر لیتی ہے آج ہم اس دور میں کھڑے ہیں کہ اسلام کے " احیاء " کا سوال ہی ایک مغالطہ لگتا ہے کیوں کہ جو کچھ استعمار اپنی باقیات کے طور پر پیچھے چھوڑ گیا ہم نے اسے اسلام کی قباء پہنا کر مسلمان کر دیا .
کیا خوب کہا تھا حضرت اقبال نے ...
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو
آتی نہیں‌ کچھ کام یہاں عقل خداداد
اے مردِ خدا ... ! تجھ کو وہ قوت نہیں‌ حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں‌ اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیء جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور اسی مضمون کو اقبال سے پہلے غالب خوب باندھ گئے ہیں
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
 
(Colonial period) دور استعمار میں اسلام پسندوں خاص کر بر صغیر کے مسلمانوں نے خوب ہاتھ مارے کہ انکی حمیت و غیرت غلامی قبولنے کو تیار نہ تھی
آئیے تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں
اگر یہ کہا جاوے کہ شاہ ولی الله دھلوی رح کی فکر کے جانشین یہ فکر وہابیہ کے علمبردار ہی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ شاہ صاحب مرحوم کی ایما پر ہی احمد شاہ ابدالی افغانستان سے ہندوستان آیا تھا اور اس نے مرہٹہ قوت کو پانی پت کی میدان میں تاراج کیا تھا ......
سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید رح کی تحریک جہاد کو کون فراموش کر سکتا ہے اور پھر اسی کا تسلسل تیتو میر کی تحریک حریت اورحاجی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے محمد محسن عرف دودھو میاں کی فرائضی تحریک 1819 ء پھر ١٨٥٧ کی جنگ آزادی اسکے بعد مولانا محمود الحسن کی قیات میں تحریک ریشمی رومال مولانا آزاد کی تحریک خلافت اور مولانا عطا الله شاہ بخاری رح کی احرار غرض اگر کوئی فعال طبقہ تھا تو یہی تھا ..........
پہلی بار اسلام کا یہ فعال طبقہ تقسیم کا شکار ہو تو جب ہوا کہ اس نے حریت کے راستے کو چھوڑ کر جمہوریت کا راستہ اختیار کیا ...
دیوبند جیسی عظیم قوت کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانا اور اپنی سیاسی فکر کو مستقبل میں مسلم لیگ اور کانگریس کے حوالے کر دینا در اصل اس بات کا اعلان تھا کہ اب مستقبل کی سیاست سے مولوی بے دخل ہو چکا ہے اور مستقبل میں وہ جو بھی کردار ادا کرے بر صغیر پاک و ہند کے سیاسی منظر نامے میں اس کی حیثیت ثانوی ہی رہے گی ..
اپنے ارد گرد سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں صاف دکھائی دے گا کہ اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی ذاتی حیثیت کچھ بھی نہیں انہیں سیاسی اتحاد کیلئے آج بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب دیکھنا پڑتا ہے اور اب اس میں ایک نئی قوت تحریک انصاف شامل ہو چکی ہے ...
مذہبی طبقے کی یہ تقسیم اتنی گہری ہے کہ متحدہ مجلس عمل جیسے تجربات بھی اسے پاٹنے میں ناکام رہے ہیں ..
اب اگر بنظر غائر دیکھا جاوے تو مذہبی طبقے کی اس تقسیم کی بنیاد دراصل " تقسیم " کا واقعہ ہی تھا کہ جب آپ نے اپنی حریت فکر اور انقلابی روح کو " جمہوریت " کے حوالے کر دیا اور پھر آپ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے چلے گئے ..
ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب
تاریخ اور آج کی دنیا میں لکھتے ہیں
نیشنل ازم نے یورپ میں قومی ریاستوں کو پیدا کیا ہے اس کے نتیجے میں کولونیلزم اور امپیریلزم پھیلا جس کے رد عمل میں تسلط شدہ ملکوں میں نیشنل ازم کے تحت تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے کولونیل تسلط سے آزادی حاصل کی ازدی کے بعد ان ملکوں میں اسی نیشنل ازم کو حکمران طبقوں نے اپنے مفادات کیلیے استعمال کیا اور یہ نو آزاد ریاستیں ٹوٹ پھوٹ انتشار اور فوجی آمریتوں کا نشانہ بنیں اب ایک بار پھر گلوبلائزیشن نیو امپیریلزم کی شکل میں پوری طاقت سے آ رہا ہے
تاریخ اور آج کی دنیا ، ڈاکٹر مبارک علی ، صفحہ ١١١، فکشن ہاؤس پبلشرز .
غور کیجئے آج ہم بحیثیت قوم جس جگہ کھڑے ہیں کیا اس کی وجہ وہ استعماری اثرات تو نہیں کہ جو برطانیہ ہماری رگوں میں چھوڑ گیا ہے کیا ہمارا قومیتوں میں منقسم ہونا اور ہمارے ملک کا فکری اور زمینی اعتبار سے تقسیم ہونا اسی زہریلے استعماری اجنڈے کا نتیجہ تو نہیں ... ؟
مسلم قوم کی اپنی ایک مذہبی اور ملی تاریخ ہے اور یہ تاریخ کسی اندھیرے میں نہیں بلکہ آج بھی روز روشن کی طرح تاریخ کے صفحات میں چمک رہی ہے گو کہ استشراقی فکر نے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے اور یورپی استعمار نے اس استشراقی فکر کو مکمل مدد فراہم کی ہے لیکن جھوٹ و دجل کے بے شمار پردے ڈالنے کے باوجود بھی وہ تاریخ کے صفحات سے ہمارے روشن کارنامے کھرچنے میں ناکام رہے ہیں .
اسلام ایک زندہ اور پائندہ دین ہے اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اسلام ایک ایسا ضابطہ زندگی ہے کہ جو رہنی دنیا تک کے انسانوں کے لیے سامان ہدایت اپنے دامن میں رکھتا ہے .
عقائد ، عبادات ، معاملات ، سیاسیات ، تعلیم ، معاشرت ، معیشت غرض کون سا ایسا شعبہ ہے کہ جس کے حوالے سے اسلامی تعلیمات موجود نہ ہوں اور یہی تمام شعبے اسلام کو صرف ایک مذہب سے بڑھا کر ایک مکمل دین بناتے ہیں جن کی جانب قرآن و سنت میں واضح اشارے ملتے ہیں .
﴿شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبر‌ٰ‌هيمَ وَموسىٰ وَعيسىٰ ۖ أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّ‌قوا فيهِ......١٣ ﴾.... سورة شورىٰ
"اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمد ا) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا"
 
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کے پس منظر کے حوالے سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے ۔ تمام انبیا نے بنیادی طور پر ایک ہی جیسے عقائد اور ایک ہی جیسے اعمال کی تعلیم دی ہے۔ شریعت کے احکام اور ان کی بجا آوری کے طریقوں میں حالات کی ضرورتوں کے لحاظ سے ، البتہ کچھ فرق رہا ہے۔ سر زمین عرب میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس موقع پر اس دین کے احوال یہ تھے کہ صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں اس کے احکام دینی مسلمات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اورملت ابراہیم کے طور پر پوری طرح معلوم و معروف تھے، تاہم بعض احکام میں تحریفات اور بدعات داخل ہو گئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا:’ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا‘ یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ آپ نے یہ پیروی اس طریقے سے کی کہ اس ملت کے معلوم و معروف احکام کو برقرار رکھا، بدعات کا قلع قمع کیااور تحریف شدہ احکام کو ان کی اصل صورت پر بحال فرمایا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
اصل الدین واحد اتفق علیہ الانبیاء علیہم السلام، وانما الاختلاف فی الشرائع والمناہج. تفصیل ذلک انہ اجمع الانبیاء علیہم السلام علی توحید اللّٰہ تعالٰی عبادۃ واستعانۃ،... وانہ قدر جمیع الحوادث قبل ان یخلقہا، وان للّٰہ ملائکۃ لا یعصونہ فیما امر، ویفعلون ما یؤمرون، وانہ ینزل الکتاب علی من یشاء من عبادہ، ویفرض طاعتہ علی الناس، وان القیامۃ حق، والبعث بعد الموت حق، والجنۃ حق، والنار حق. وکذلک اجمعوا علی انواع البر من الطہارۃ والصلٰوۃ والزکٰوۃ والصوم والحج والتقرب الی اللّٰہ بنوافل الطاعات من الدعاء والذکر وتلاوۃ الکتاب المنزل من اللّٰہ، وکذلک اجمعوا الی النکاح وتحریم السفاح واقامۃ العدل بین الناس وتحریم المظالم واقامۃ الحدود علی اہل المعاصی والجھاد مع اعداء اللّٰہ والاجتہاد فی اشاعۃ امر اللّٰہ ودینہ، فھذا اصل الدین، ولذلک لم یبحث القرآن العظیم عن لمیۃ ہذہ الاشیاء الا ما شاء اللّٰہ، فانہا مسلمۃ فیمن نزل القرآن علی السنتہم. وانما الاختلاف فی صور ہذہ الامور واشباحہا.
حجۃ اللہ البالغہ۱ / ۱۹۹۔۔۲۰۰
’’اصل دین ایک ہے، سب انبیا علیہم السلام نے اسی کی تبلیغ کی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو فقط شرائع اور مناہج میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب انبیا نے متفق الکلمہ ہو کر یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دین کا بنیادی پتھر ہے۔ عبادت اور استعانت میں کسی دوسری ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ... ان کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے سب حوادث اور واقعات کو وقوع سے پہلے ازل میں مقدر کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک پاک مخلوق ہے جس کو ملائکہ کہتے ہیں۔ وہ کبھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اس کے احکام کی اسی طرح تعمیل کرتے ہیں، جس طرح ان کو حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو چن لیتا ہے جس پر وہ اپنا کلام نازل فرماتا ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت فرض کر دیتا ہے۔ موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہے، جنت اور دوزخ کا ہونا حق ہے۔جس طرح ہر دین کے عقائد ایک ہیں، اسی طرح بنیادی نیکیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ چنانچہ دین میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو فرض قرار دیا گیا ہے۔نوافل عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں قرب حاصل کرنے کی تعلیم ہر دین میں موجود ہے۔ مثلاًمرادوں کے پورا ہونے کے لیے دعا مانگنا، اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا نیز کتاب منزل کی تلاوت کرنا۔ اس بات پر بھی تمام انبیا علیہم السلام کا اتفاق ہے کہ نکاح جائز اور سفاح۳؂ حرام اور ناجائز ہے۔ جو حکومت دنیا میں قائم ہو عدل اور انصاف کی پابندی کرنا اور کمزوروں کو ان کے حقوق دلانا اس کا فرض ہے۔ اسی طرح یہ بھی اس کا فرض ہے کہ مظالم اور جرائم کے ارتکاب کرنے والوں پر حد نافذ کرے، دین اور اس کے احکام کی تبلیغ اور اشاعت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ یہ دین کے وہ اصول ہیں جن پر تمام ادیان کا اتفاق ہے اور اس لیے تم دیکھو گے کہ قرآن مجید میں ان باتوں کو مسلمات مخاطبین کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور ان کی لمیت سے بحث نہیں کی گئی۔ مختلف ادیان میں اگر اختلاف ہے تو وہ فقط ان احکام کی تفاصیل اور جزئیات اور طریق ادا سے متعلق ہے۔‘‘
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ حصہ اول
ماہنامہ اشراق
 
سید مودودی رح نے ایک مرتبہ کہا تھا
" غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں یہ بچے جنتی ہیں "
ہم کہتے ہیں کہ
" غلطیوں کے یہ بچے شیر مادر پر نہیں خون ملت پر پروان چڑھتے ہیں "
اسلامی ترقی کا معیار اسلامی معاشرت میں مضمر تھا
سید قطب شہید رح ایک جگہ لکھتے " اسلامی حکومت اسلامی معاشرت کا عطر "
اسلامی معاشرت جن امور کی بنیاد پر تشکیل دی جا سکتی ہے وہ ہیں
١ تزکیہ
٢ تعلم
٣ دعوت
٤٤ جہاد
ان کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا گیا وہ ایک ایسی بدعت بنا جسکا تریاق سنت کی طرف مکمل طور پر پلٹنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا
ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے وہ ہتھیار جو مغرب کا تھا خود استعمال کیا مگر ہم اس سے ناواقف تھے کہ کہ ہم اپنی ہی گردن کاٹنے جا رہے ہیں یہ ہتھیار تھا " مغربی جمہوریت "
تُونے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
سید مودودی رح تجدید و احیاء دین میں لکھتے ہیں
جاہلیت کا حملہ
" سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جاہلیت بے نقاب ہوکر سامنے نہ آئ تھی بلکہ مسلمان بن کر آئ تھی کھلے دہریے یا مشرکین و کفار سامنے ہوتے تو مقابلہ آسان تھا مگر وہاں تو آگے آگے توحید کا اقرار رسالت کا اقرار صوم و صلات پر عمل قرآن و حدیث سے استشہاد تھا اور پیچھے پیچھے جاہلیت اپنا کام کر رہی تھی ایک ہی وجود میں اسلام و جاہلیت کا اجتماع ایسی سخت پیچیدگی پیدہ کر دیتا ہے کہ عہدہ بر آ ہونا ہمیشہ جاہلیت صریحہ کے مقابلے میں مشکل ہوتا ہے "
یہ جاہلیت ہمیشہ اسلام کے لبادے میں ہی حملہ اور ہوتی ہے اور اکثر اسکا نشانہ اسلام کا سیاسی نظام ہوتا ہے یہ مغالطہ جمہوریت کو اسلامائز کرنے والے احباب سے ہوا جب ایک نظریہ کیلئے دلائل قرآن و سنت سے
فراہم کے جائیں تو اسکی حیثیت ایک ٹول کی سی نہیں رہتی بلکہ اسکی حیثیت دین کی ہو جاتی ہے اور یہ ایک ایسی " بدعت " ہے جو اسلام کے متعارض ایک نظام کو اسلام قرار دلوا دیتی ہے .
احکام شریعت یا حدود الله کا نفاز تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور اگر کہیں مسلمان اکثریت میں موجود ہیں اور نظام شریعت موجود نہیں تو ان پر لازم ہے کہ نظام شریعت کو نافذ کریں ورنہ وہ تمام معاملات شریعت جو حکومت سے منسلک ہیں ہمیشہ معطل ہی رہینگے .
یہاں شاہ ولی اللہ دھلوی رح کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں
مسئلہ در تعریف خلافت: 'هی الرياسة العامة فی التصدی لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية وإقامة أرکان الإسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفرض للمقاتلة و اعطائهم من الغيئ والقيام بالقضاء وإقامه الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهی عن المنکر نيابة عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم.'تفصیل ایں تعریف آنکہ معلوم بالقطع ست از ملت محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چوں مبعوث شدند برایئ کافہ خلق اللہ باایشاں معاملہ ہاکردند و تصرفہا نمو دند برائے ہر معاملہ نُوّاب تعیین فرمودند و اہتمام عظیم در ہر معاملہ مبذول داشتند، چوں آں معاملات را استقراء نمائیم واز جزئیات بکلیات واز کلیات بہ کلی واحد کہ شامل ہمہ باشد انتقال کنیم جنس اعلیٰ آں اقامت دین باشد کہ متضمن جمیع کلیات ست و تحت وے اجناس دیگر باشد یکے ازاں احیائے علوم دین ست از تعلیم قرآن و سنت و تذکیر و موعظت.
١/١٣-١٤
''یہ مسئلہ خلافت کی تعریف میں ہے: 'خلافت سے مراد وہ ریاست ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں علوم دینیہ کے احیا، ارکان اسلام کی پابندی، جہاد اور اس کے لیے افواج اور ساز و سامان کی تیاری کے اہتمام، مال فے کی تقسیم ، نظام قضا کے اہتمام، حدود کے نفاذ، رفع مظالم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے ذریعے سے دین کی اقامت کے درپے ہو۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات جب پوری قطعیت سے معلوم ہے کہ وہ تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث تھے تو ان کے ساتھ آپ نے طرح طرح کے معاملات اورمختلف تدابیر اختیار فرمائیں۔ ہر معاملے کے لیے ذمہ داروں کی تعیین فرمائی اور ہر معاملے کو انجام دینےکے لیے بڑا اہتمام فرمایا۔ جب ہم ان تمام معاملات کا استقرا کرتے ہیں اور جزئیات سے کلیات اور پھر ان کلیات سے ایسا واحد کلیہ معلوم کرتے ہیں جو تمام کلیات کا جامع ہو تو وہ جنس اعلیٰ، دراصل 'اقامت دین' ہی ہے، جو تمام کلیات پر مشتمل ہے اور ا س کے تحت بہت سے دوسرے شعبے بھی آتے ہیں۔ ان میں سے ایک قرآن و سنت کی تعلیم، تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ذریعے سے دینی علوم کا احیا ہے۔''
 
بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی کے:
" اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چناںچہ ماوردی نے یہ بات لکھی ہے کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔
محاضراتِ شریعت : ص287
اسلام پسندوں سے اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ " خلافت " کیسے آتی ہے یا اسلامی حکومت کا قیام آخر کیسے ہوتا ہے اس سوال کا جواب دینے میں اکثر اسلام پسندوں کو دانتوں پسینہ آ جاتی ہے ایک جانب تو یہ خوف کہ کہیں ان پر " شدت پسندی " کا لیبل نہ لگ جاوے تو دوسری جانب جمہوری غلام گردشوں میں چکر کاٹتی انکی سیاسی مجبوریاں .
اس سے پہلے کہ اس سوال کا جواب دیا جاوے کہ اسلامی حکومت آتی کیسے ہے ہم ایک الزامی سوال جدت پسندوں کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں .
آخر یہ غیر اسلامی حکومت کیسے آتی ہے ... ؟
دنیا میں لوگ (communities) بنا کر رہتے ہیں اور ان (communities) میں نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے انہیں ایک ریاست کے ماتحت کیا جاتا ہے اور اس ریاست کو مختلف طریقوں سے چلایا جاتا ہے یہی طریقے " سیاست مدن " کے نام سے پہچانے جاتے ہیں .
(monarchy) شہنشاہیت قدیم ترین ہے کہ جس کے دو بازو قوت اور عصبیت ہیں کہیں وطنی عصبیت تو کہیں قومی عصبیت اسکی بنیاد بنتی ہے یہ عصبیت ہی ہے کہ جو منگولیا کے منتشر قبائل کو ایک عالمی قوت میں تبدیل کر دیتی ہے ...
پھر شہنشاہیت اپنی شکل بدلتی ہے اور (imperialism) سامراج بن جاتی ہے اور پوری دنیا کو اپنی نو آبادیات میں شامل کر لیتی ہے اسکی بنیاد بھی قوت اور ضرورت ہے کہ جو انگلستان کے باشندوں کو ہندوستان لے آتی ہے .
یا قریب میں ناکام ہوتی ہوئی سوشلسٹ ، مارکسسٹ ریاستیں یہاں پر بنیادی قوت نظریاتی عصبیت ہے کہ جو معاشروں کو اپنے شکنجے میں کستی دکھائی دیتی ہے ..
یا پھر جدید جمہوریت (Democracy) کہ جس کا عروج انقلاب فرانس کے بعد ہوا یا امریکہ کی خانہ جنگی نے جس کی راہ ہموار کی .
کہیں پر صریح قوت کا استعمال ہے تو کہیں پر ایک قوم کا دوسری پر غالب آ جانا کہیں قومی و وطنی عصبیت ہے تو کہیں نظریاتی تقسیم کہیں وسائل کے حصول کا معاملہ ہے تو کہیں دنیا پر غالب آ جانے کی خواہش .
تاریخ انتہائی صاف اور سیدھے انداز میں بتلاتی ہے کہ کوئی بھی نظام کہ جو دنیا پر نافذ ہوا ہو اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے اس کے پیچھے ایک جدو جہد ہے انقلاب ہے قربانیاں ہیں افکار ہیں شخصیات ہیں عصبیت ہے .
پھر اسلام پسندوں سے یہ سوال کہ " شریعت " کیسے آوے گی انتہائی عجیب لگتا ہے اگر اسلام کا کوئی سیاسی نظام ہے تو وہ بھی ان فطری طریقوں سے ہی آوے گا کہ جن سے دنیا کے دوسرے نظام آئے ہیں .
دوسری جانب اسلام صرف ایک نظام نہیں بلکہ ایک مکمل طرز زندگی کا نام ہے ..
ایک نبی داعی بھی ہوتا ہے مصلح بھی ہوتا ہے اور حاکم اور قاضی بھی ہوتا ہے ..
نبی کریم صل الله علیہ وسلم مکہ میں داعی تھے لیکن آپ کی محنت صرف دعوت تک محدود نہیں تھی بلکہ طائف کا سفر حبشہ کی ہجرت اور مدینے مہاجرت ہمیں بتلاتی ہے کہ الله کے رسول صل الله علیہ وسلم اس سے بڑھ کر کچھ اور چاہتے تھے یعنی الله کی زمین پر الله کی حکومت .
اگر ہم بتدریج دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی ایک مصلح بن کر اٹھتا ہے اور کسی ایک علاقے یا قوم کو اپنی دعوت کی بنیاد بناتا ہے اب اگر وہاں اسکی دعوت مقبول ہو جاوے تو اگلا قدم تشکیل معاشرت کا ہوتا ہے اور اگر دعوت مقبول نہ ہو اور حالات مشکل ہوتے چلے جائیں تو اگلا قدم ہجرت کا ہوتا ہے .
یعنی ترتیب کچھ یوں ہے
دعوت اگر کامیابی ہو تو تشکیل معاشرت اور اگر ناکامی ہو تو ہجرت یہاں تک کہ سازگار ماحول فراہم نہ ہو جاوے جیسے حضرت موسیٰ علیہ سلام اور انکی قوم کا معاملہ .
جب سازگار ماحول فراہم ہو جاوے تو انتہائی یکسوئی کے ساتھ تشکیل معاشرت کے جس کی بنیاد عقائد اور عبادات پر ہو ...
خلافت کا مسلہ امت کے ابتدائی دور میں ہی اختلافی ہو گیا تھا جب حضرت امیر معاویہ رض کی حکومت سے متعلق بحث شروع ہوئی کہ یہ خلافت تھی یا ملوکیت .
ابن خلدون اپنے " مقدمے " میں اسے " خلافت سے ملوکیت کی جانب ابتدائی قدم قرار دیتے ہیں
جب بھی اس معاملے پر گفتگو کی جاتی ہے ہمیشہ احباب افراط و تفریط کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہیں پر کچھ لوگوں کو یہ شدید مغالطہ لگتا ہے کہ خلافت کا قیام سرے سے کوئی ذمے داری ہے ہی نہیں .....
دوسری طرف کچھ احباب صرف حصول حکومت کو ہی خلافت سمجھ کر اپنی تحریک کی بنیاد رکھتے ہیں اور پھر حکومت الہیہ تو دور کی بات اسلام دشمنوں کے اتحادی بننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے پھر ہم جمہوریت کو خلافت قرار دیتے نظر آتے ہیں ........
اب چند امور کا سمجھ لینا ضروری ہے لیکن یہ ہم پر لازم ہے کہ اس موضوع پر سلف کے سیدھے اور سچے راستے کو تھام کر رکھیں .......
١١ .احکام شریعت یا حدود الله کا نفاز تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور اگر کہیں مسلمان اکثریت میں موجود ہیں اور نظام شریعت موجود نہیں تو ان پر لازم ہے کہ نظام شریعت کو نافذ کریں ورنہ وہ تمام معاملات شریعت جو حکومت سے منسلک ہیں ہمیشہ معطل ہی رہینگے .....
یہاں شاہ ولی اللہ دھلوی رح کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں

مسئلہ در تعریف خلافت: 'هی الرياسة العامة فی التصدی لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية وإقامة أرکان الإسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفرض للمقاتلة و اعطائهم من الغيئ والقيام بالقضاء وإقامه الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهی عن المنکر نيابة عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم.'تفصیل ایں تعریف آنکہ معلوم بالقطع ست از ملت محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چوں مبعوث شدند برایئ کافہ خلق اللہ باایشاں معاملہ ہاکردند و تصرفہا نمو دند برائے ہر معاملہ نُوّاب تعیین فرمودند و اہتمام عظیم در ہر معاملہ مبذول داشتند، چوں آں معاملات را استقراء نمائیم واز جزئیات بکلیات واز کلیات بہ کلی واحد کہ شامل ہمہ باشد انتقال کنیم جنس اعلیٰ آں اقامت دین باشد کہ متضمن جمیع کلیات ست و تحت وے اجناس دیگر باشد یکے ازاں احیائے علوم دین ست از تعلیم قرآن و سنت و تذکیر و موعظت.
''یہ مسئلہ خلافت کی تعریف میں ہے: 'خلافت سے مراد وہ ریاست ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں علوم دینیہ کے احیا، ارکان اسلام کی پابندی، جہاد اور اس کے لیے افواج اور ساز و سامان کی تیاری کے اہتمام، مال فے کی تقسیم ، نظام قضا کے اہتمام، حدود کے نفاذ، رفع مظالم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے ذریعے سے دین کی اقامت کے درپے ہو۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات جب پوری قطعیت سے معلوم ہے کہ وہ تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث تھے تو ان کے ساتھ آپ نے طرح طرح کے معاملات اورمختلف تدابیر اختیار فرمائیں۔ ہر معاملے کے لیے ذمہ داروں کی تعیین فرمائی اور ہر معاملے کو انجام دینےکے لیے بڑا اہتمام فرمایا۔ جب ہم ان تمام معاملات کا استقرا کرتے ہیں اور جزئیات سے کلیات اور پھر ان کلیات سے ایسا واحد کلیہ معلوم کرتے ہیں جو تمام کلیات کا جامع ہو تو وہ جنس اعلیٰ، دراصل 'اقامت دین' ہی ہے، جو تمام کلیات پر مشتمل ہے اور ا س کے تحت بہت سے دوسرے شعبے بھی آتے ہیں۔ ان میں سے ایک قرآن و سنت کی تعلیم، تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ذریعے سے دینی علوم کا احیا ہے۔''
٢- دوسری طرف ایک شدید ترین مغالطہ یہ لگتا ہے کہ ہم بزور قوت خلافت کو نافذ کر دینگے یہاں ایک بات واضح طور پر جان لیجئے کہ پہلی اسلامی ریاست " مدینہ " کے قیام میں کسی بھی قسم کی کوئی قوت صرف نہیں ہوئی .......
خلافت ارضی کی اقسام ہیں ایک وہ خلافت ہے جو انسان کو تمام مخلوقات پر حاصل ہے یعنی انسان دوسری تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہے جیساکہ قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ زمین و آسمان کو انسان کے
واسطے مسخر کر دیا گیا .......
پھر ایک خلافت وہ ہے جو انبیاء علیھم السلام کو حاصل ہے بطور نائب جس کا اعلان حضرت آدم علیہ سلام کی تخلیق کے ساتھ کیا گیا ........
پھر ایک خلافت بمعنی حکومت یا اسلامی ریاست کے ہے .......
ریاست اسلامی میں چاہے کتنی بھی قوت کیوں موجود نہ ہو اسلامی معاشرے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی اسلامی ریاست زمین کے کسی ٹکڑے یا چند قوانین کا نام نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا مطلب ہے اسلامی معاشرت کا قیام .......
اب پورے قرآن کا مطالعہ کیجئے ہر جگہ الله نے خلافت کی نسبت اپنی جانب کی ہے یعنی ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا ہم نے تمہیں ریاست عطا فرمائی کہیں بھی کوئی ایک ایسی آیت موجود نہیں جہاں یہ مضمون ہو کہ تم نے خلافت حاصل کر لی .....
اگر معاشرے کا کثیر طبقہ دیندار ہے اور دین سے محبت رکھتا ہے اور چند قلیل شر پسند معاشرے میں موجود ہیں تو حدود الله کے نفاذ سے یعنی شرعی سزاؤں سے انھیں اعتدال میں رکھ جا سکتا ہے ....
لیکن اگر معاشرے کا کثیر طبقہ سرکشی پر آمادہ ہو تو حکومت اور قوت کے باوجود بھی آپ حدود الله کو قائم نہیں رکھ سکتے .......
حضرت عمر بن عبدلعزیز رح جنھیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے حکومتی قوت کے باوجود دو سال میں ایسی معاشرت تشکیل نہ کر سکے جو خلافت کی حقدار ہوتی اور جیسے ہی انکی کی اس دنیا سے رخصت ہوئی خلافت نے پھر ملوکیت کی شکل اختیار کر لی ......
الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے پہلے یکسوئی کے ساتھ امت تشکیل دی پھر ریاست کے حصول کے ساتھ بدر سے پہلے اسلام کا نظام عبادات قائم فرما دیا اب چونکہ پشت پر ریاست تھی اور احکام شریعت اور اسلامی معاشرت قائم تھے اسلئے الله کی جانب سے فتوحات کا نزول ہونا شروع ہوا ......
یہاں پھر چند امور پر غور کیجئے احد اور خاص کر حنین میں جب نو مسلموں کی جانب سے ذرا سی کوتاہی ہوئی تو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی موجودگی میں بھی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ مسلمانوں کے پاس زبردست قوت موجود تھی .......
دوسری طرف غزوہ احزاب جس میں قرآن خود کہتا ہے کہ کلیجے حلق میں آ رہے تھے پیچھے یہود اور سامنے پورے عرب کی قوت موجود تھی الله نے تلوار ہلائے بغیر فتح مبین سے نواز دیا .......
سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ آپ کے پاس کتنی ہی جہادی قوت کیوں موجود نہ ہو الله کی صریح نصرت کے بغیر فتح ممکن نہیں اور یہ اسوقت کا معاملہ ہے جب اسلامی ریاست موجود تھی ......
دوسری طرف تلوار کی قوت سے اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں .....
یہ سمجھ لیجئے کہ تلوار کی قوت سے ریاست کا قیام تو ضرور ممکن ہے لیکن اس ریاست میں مکمل اسلامی معاشرت موجود ہو اسکیلئے نبوی طریق پر محنت کی شدید ضرورت ہے ...
قیام ریاست اور اقامت دین کے صاف اور واضح مدارج ہیں جن کے بغیر اسلامی حکومت تو قائم ہو سکتی ہے خلافت نہیں ......
اب سوال یہ ہے کہ اسلامی حکومت اور خلافت میں کیا فرق ہے ....
بنو امیہ یا بنو عباس کے متعدد حکمرانوں یا خلافت عثمانیہ یا پھر ہندوستان کے دیندار مغل حکمرانوں اورنگزیب وغیرہ کی حکومت کو اسلامی حکومت کہ سکتے ہیں جب کہ احکام شریعت ریاستی سطح پر قوت
کی بنیاد پر نافذ تھے اسلامی سزائیں دی جاتی تھیں .........
لیکن انہیں خلافت راشدہ قرار نہیں دیا جا سکتا ......
خلافت راشدہ وہ اسلامی حکومت ہے جہاں تمام معاشرہ چند ایک شر پسندوں کو چھوڑ اسلام کے مکمل رنگ میں رنگا دکھائی دے ...
 
پھر خلافت راشدہ کا مطالعہ کیجئے پہلے دو ادوار یعنی حضرت ابو بکر صدیق رض اور حضرت عمر فاروق رض کے ادوار کے استحکام میں اور حضرت عثمان رض اور حضرت علی رض کے ادوار کے استحکام میں فرق تھا ........
اگر غور کیجئے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ اصحاب رسول رض کے انتقال اسلامی ریاست کی سرحدوں کی تیزی سے وسعت اور کثیر تعداد میں نو مسلموں کی اسلام میں شمولیت نے خوارج اور روافض جیسے شدید تر فتنوں کو پیدہ کیا .......
یعنی جیسے ہی اسلامی معاشرت کی گرفت ڈھیلی ہونا شروع ہوئی خلافت کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہو گیا آخر کیوں .........
غور کیجئے حکومت موجود تھی قوت موجود تھی ریاست میں اسلامی قوانین نافذ تھے لیکن پھر دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مروان اور یزید جیسے حکمرانوں نے حکومت کی ...
اب کچھ خلافت کے قیام کے مختلف مدارج کی جانب اشارہ کر دوں .......
قرآن کریم سے ہدایت حاصل کیجئے
سورہ شوریٰ میں ارشاد ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحًا وَّالَّذِیْۤ اَوْحَيْْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْْنَا بِهۤ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰی وَعِيْسٰۤی اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ.(٤٢: ١٣)
''اس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ پیدا کرنا۔''
اب غور کیجئے ان تمام انبیاء کو دین میں " اولولعزم پیغمبر " کا خطاب دیا گیا ہے اب کچھ اس کی تفصیل
'عزم'' کے معنی مستحکم اور مضبوط ارادہ کے ہیں، راغب اصفہانی اپنی مشہورو معروف کتاب ''مفردات'' میں کہتے ہیں: عزم کے معنی کسی کام کے لئے مصمم ارادہ کرنا ہے، ''عقد القلب علی امضاء الامر''
قرآن مجید میں کبھی ''عزم'' کے معنی صبر کے لئے گئے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوند ہے:
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ ِنَّ ذَٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الُْمُورِ
''اور یقینا جو صبر کرے اور معاف کردے تو اس کا یہ عمل بڑے صبرکا کام ہے''۔
اب ان انبیاء علیہ سلام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیجئے
نوح علیہ سلام
ابراہیم علیہ موسیٰ علیہ سلام
عیسی علیہ سلام
اور حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم خاتم النبین
١.پہلے شدید ترین مشکلات میں انتہائی صبر کے ساتھ دعوت
٢. صالح ترین لیکن مختصر انسانی گروہ کی تعلیم ، تزکیہ و تربیت
٣٣. پھر اتمام حجت کے بعد ہجرت
خلافت ہمیشہ اتمام حجت اور ہجرت کے بعد ہی قائم ہوئی ہے اس گروہ انبیاء میں صرف حضرت مسیح علیہ سلام کا معاملہ بظاہر مختلف دکھائی دیتا ہے ....
لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ
آپ نے شدید مشکلات میں صبر کے ساتھ دعوت دی قوم پر اتمام حجت کیا آپ کی ہجرت آسمان پر ہوئی اور اب آپ زمین پر نازل ہوکر خلافت قائم فرمائینگے .........
یہاں محمد قطب رح کا جملہ نقل کر دوں ......
حکومت الہیہ اسلامی معاشرت کا عطر ہے
جب تک تشکیل معاشرت نہیں ہو جاتی اور معاشرہ رجوع الی الله نہیں کر لیتا اسلامی حکومت کا ظہور نا ممکنات میں سے ہے .........
اگر ریاست اسلامی کے مسلے کو آسان مثال سے سمجھیں تو معاملہ کچھ یوں بنتا ہے ....
ریاست کیلئے آئین بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے ..
جب ہم شخص واحد کی بات کرتے ہیں تو اسکے لیے آئین کلمہ طیبہ ہے لَا اِلَہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ "اللّٰہ کو سوا کوئی عبادت کو لائق نہیں، محمد ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے رسول ہیں" ہے اب الله کی حاکمیت اور الله کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا قانون تسلیم کر لینے کے بعد اسپر کچھ عبادات لازم ہو جاتی ہیں
جیسا کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
"بنی الإسلام علی خمس؛ شھادۃ أن لا إلہ إلا اللہ و أن محمدا رسول اللہ، و إقام الصلاۃ و إیتاء الزکاۃ وصوم رمضان وحج البیت"
 
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:

۱۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
۲۔ نماز قائم کرنا ۔
۳۔ زکاۃ ادا کرنا۔
۴۔ ماہ رمضان کا روزہ رکھنا ۔
۵۔ خانۂ کعبہ کا حج کرنا ۔
اب یہ شخص ان تمام عبادات کو ترک کر دے بلکہ انپر زور آور ہو جائے اور کھلے عام انکی مخالفت کرے تو اسکو طغیان کہیںگے اور یہ باغیانہ عمل اسکے اسلام کو فاسد کر دے گا !
ایسا ہی معاملہ ریاستوں کا ہے کسی ریاست میں حاکمیت اعلی الله کی اور قانون قرآن و سنت کا ہے لیکن عمل اسکے بر عکس ہے تو کیا حکم لگے گا .......
اب مسلے کی اور وضاحت کرتے ہیں "جب اشخاص کلمہ پڑھتے ہیں تو انپر عبادات لازم ہو جاتی ہیں اور جب ریاستیں کلمہ پڑھتی ہیں تو انپر حدود لازم ہو جاتی ہیں "
ڈاکٹر عبدالعزیز عامر نے اپنی تالیف ”التعزیر فی الشریعة الاسلامیہ “میں صرف سات جرائم کو قابل حد قرار دیا ہے ۔ (التعزیرفی الشریعة الاسلامیة۔ ص 13)لیکن جن جرائم کے حدود ہونے پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے وہ سب قرآن پاک سے ثابت ہیں۔
.1زنا کی حد کا ثبوت سورة النور کی آيت نمبر2میں ہے۔
.2 تہمت کی حدکا ثبوت سورة النور کی آیت نمبر 4میں ہے۔
. 3 راہزنی کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 34-33 میں ہے۔
.4 چوری کی حدسورة المائدة کی آیت نمبر 38 میں ہے۔
.5 شراب نوشی کی حد سورة المائدة کی آیت نمبر 90 میں ہے۔
.6 باغی کی حد سورة الحجرات کی آیت نمبر 9 میں ہے۔
.7مرتد کی حد سورة البقرة کی آیت نمبر 2177 میں ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں” بعض معاصی کے ارتکاب پر شریعت نے حد مقرر کی ہیں۔ یہ وہی معاصی ہیں جن کے ارتکاب سے زمین پر فساد پھیلتاہے۔ نظامِ تمدن میں خلل پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کی طمانیت اور سکون ِقلب رخصت ہو جاتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ معاصی کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں کہ دو چار بار ان کا ارتکاب کرنے سے ان کی لت پڑ جاتی ہے۔ ا ور پھر ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی معاصی میں محض آخرت کے عذاب کا خوف دلانا اور نصیحت کرنا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ ایسی عبرتناک سزامقر ر کی جائے کہ اس کا مرتکب ساری زندگی کے ليے معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور سوسائٹی کے دیگر افراد کے لیے سامانِ عبرت بنا رہے۔ اور اسکے انجام کو دیکھ کر بہت کم لوگ اس قسم کے جرم کی جرا ت کریں“ ۔
(حجة اللہ البالغہ ، شاہ ولی اللہ دہلوی۔ ج 2 ص 158 )
اب ایک ایسا معاشرہ جہاں حدود الله کا نفاذ تو دور کو بات انکی باقاعدہ پامالی ہو رہی ہو اور انکے خلاف قوانین نافذ ہوں جنکو ریاست کی مکمل سپورٹ حاصل ہو تو لاکھ اسلامی آئین کی بات کیجئے ریاست کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا !
اب ریاست پاکستان کو دیکھیں یہاں باقاعدہ سودی نظام رائج ہے فحاشی کے ادارے فلم انڈسٹری کی شکل میں موجود ہیں شرک و بدعات کو باقاعدہ ریاستی سپرستی حاصل ہے حدود ساقط ہیں کفر کی چاکری ہو رہی ہے اور لوگوں کی جانیں اور اموال محفوظ نہیں ان تمام حالات میں آئین کی چند شقیں کیا کسی ریاست کو اسلامی قرار دینے کے لیے کافی ہو سکتی ہیں "
اپنے سلسلہ مضامین ’’اسلامی ریاست‘‘ میں اسلام کی سیاسی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب سید ابوالا علیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
حاکمیت الہٰ کے اصل الاصول کی بنا پر قانون سازی کا حق انسان سے سلب کرلیا گیا ہے۔ کیونکہ انسان مخلوق اور رعیت ہے۔ بندہ اور محکوم ہے، اور اس کا کام صرف اس قانون کی پیروی کرنا جو مالک الملک نے بنایا ہو۔ البتہ قانونِ الہٰی کی حدود کے اندر استنباط واجتہاد سے تفصیلات فقہی مرتب کرنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ جس کی اجازت ہے۔ نیز جن امور میں اللہ اور اس کے رسول نے کوئی صریح حکم نہ دیا ہو، ان میں روح شریعت اور مزاجِ اسلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون بنانے کا حق اہلِ ایمان کو حاصل ہے۔ کیونکہ ایسے امور میں کسی صریح حکم کا نہ ہونا بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے متعلق ضوابط واحکام مقرر کرنے کا حق اہلِ ایمان کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی بات سامنے رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے قانون کو چھوڑ کر جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو (برحق) تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت وباغی اور خارج ازاطاعتِ حق ہے اور اس سے فیصلہ چاہنے والا اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کا مجرم ہے۔"
جب تک دین کسی کے بدن میں اتر کر اسکے اعمال کو اپنے مطابق نہیں بنا لیتا "اسلامی " کا لاحقہ اسکے نام کے ساتھ لگا دینا اسکو کوئی نفع نہیں پھنچا سکتا !
حسیب احمد حسیب
 
Top